فی سبیل اللہ سے مراد کیا ہے ؟ || Fi Sabilillah sa kia Murad Hai ?

حدیث کا مفہوم یہ ہے //کہ جو کوئی اللہ کے راستے میں،،، یعنی فی سبیل اللہ،،، روزہ رکھتا ہے وہ جھنم سے ستر سال کی مسافت دور ہو جاتا ہے  وغیرہ!! یہاں فی سبیل اللہ سے مراد  صرف اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا خاص ہے ،یعنی وہ جھنم سے اتنا دور ہو جائے گا،یا پھر کوئی بھی روزہ رکھتا ہے تو وہ بھی اس فضیلت میں شامل ہو جائے گا،،،،جس کو اللہ ستر سال کی مسافت برابر جھنم سے دور کر دیں گے،،، مختصر  یہ  ہے کہاگر کوئی  بھی نفلی روزہ رکھتا ہے تو کیا وہ بھی جہنم سے اتنا دور ہو جائے گا،،،یا پھر یہ خاص مجاھد فی سبیل اللہ ہی ہیں،،،،، وضاحت فرما دیں،،، اللہ آپ کی دنیا آخرت میں حفاظت فرمائے(آمین) آپکا دینی بھائی،،،، مدثر،القصیم،سعودی عرب۔

جواب: بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، اما بعد؛


فی سبیل اللہ سے مراد:

فی سبیل اللہ سے مراد عام طور پر جہاد فی سبیل اللہ ہی لیا جاتا ہے، بعض احادیث میں سفر حج کو بھی سبیل اللہ قرار دیا گیا ہے۔ البتہ جہاں تک تعلق ہے حدیث: "من صام يوماً في سبيل الله باعد الله وجهه عن النار سبعين خريفاً" کا یعنی جو اللہ کے راستے میں ایک دن  کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دیتے ہیں[مسلم:]

تو عرض ہے کہ اس بارے میں علماء کرام نے دونوں احتمالات کو پیش نظر رکھا ہے، سب سے بہتر توجیہ امام ابن دقیق العید نے الاحکام شرح عمدۃ الأحکام (۔۔۔۔) میں پیش کی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس سے موافقت کی۔ ابن دقیق العید فرماتے ہیں:                     '' قَوْلُهُ " فِي سَبِيلِ اللَّهِ " الْعُرْفُ الْأَكْثَرُ فِيهِ: اسْتِعْمَالُهُ فِي الْجِهَادِ، فَإِذَا حُمِلَ عَلَيْهِ: كَانَتْ الْفَضِيلَةُ لِاجْتِمَاعِ الْعِبَادَتَيْنِ - أَعْنِي عِبَادَةَ الصَّوْمِ وَالْجِهَادِ - وَيُحْتَمَلُ أَنْ يُرَادَ بِسَبِيلِ اللَّهِ: طَاعَتُهُ كَيْفَ كَانَتْ. وَيُعَبَّرُ بِذَلِكَ عَنْ صِحَّةِ الْقَصْدِ وَالنِّيَّةِ فِيهِ وَالْأَوَّلُ: أَقْرَبُ إلَى الْعُرْف'' یعنی عرف میں عام طور پر فی سبیل اللہ  کا استعمال جہاد کے لیے ہوتا ہے،اگر یہاں(روزے کی حدیث میں) اسے جہاد پر ہی محمول کیا جائے تو اس طرح دو عبادات جمع سکتی ہیں(یعنی روزہ اور جہاد) ، اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو۔اس اعتبار اس وقت کیا جائے گا جب نیت میں خلوص اورمقصد میں  درستگی ہو گی۔ لیکن پہلا معنیٰ عرف کے زیادہ قریب ہے[الاحکام  شرح عمدۃ الأحکام(۲؍۳۷)] علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اسی تشریح کو ترجیح دی ہے۔

امام ابن الجوزی اور نووی وغیرہ نے اس سے مراد صرف جہاد فی سبیل اللہ ہی لیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ قریب المراد ہے، ما سوائے اس وقت جب قوی کمزور پڑ جائیں اور جہاد  و قتال میں رکاوٹ کا باعث ہو تب روزہ افطار کرنا زیادہ افضل ہے۔ البتہ اگر نیت میں خلوص ہو تو عام روزہ بھی اس نوید کا حقدار بنا سکتا ہے۔  واللہ اعلم

کتبہ: ابو احمد السلفي عفی عنہ

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ