كيا ہر علاقے والوں كو معين فقہى مسلك اختيار كرنا لازم ہے ؟

 

كيا ہر علاقہ كے ليے كوئى خاص مسلك اختيار كرنا اور باقى مسلك چھوڑ كر صرف ايك ہى فقہى مسلك كى تعليم دينے كى كوشش كرنا، مثلا كسى شرعى معاملہ ميں باقى فقہى مذاہب چھوڑ كر اپنا فقہى مسلك بيان كرنا لازم ہے ؟

الحمد للہ:

مختلف علاقوں ميں ـ اجتھاد اور تقليد كے اعتبار سے ـ لوگوں كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

شريعت اسلاميہ كے مسائل ميں اجتھاد كرنے والے علماء كرام جو اپنے علم و معرفت كى بنا پر اجتھاد و استنباط كے درجہ پر فائز ہوں، اور فتوى دينے كے اہل ہوں تو ايسے افراد كے ليے اس كى اتباع ضرورى ہے جسے وہ دليل كے ساتھ حق ديكھيں.

دوسرى قسم:

ايسے لوگوں كى اكثريت جن كا تخصص علوم اسلاميہ كى تدريس و تعليم نہيں، يا پھر وہ اجتھاد و فتوى كى اہليت تك نہيں پہنچ سكے، عامۃ الناس يا دوسرے علوم كے ماہرين افراد.

تو ايسے لوگوں پر ـ شرعى اور طبعى ـ فرض يہ ہے كہ وہ اہل علم سے دريافت كريں، اور ان سے مسائل پوچھ كر عمل كريں اس كى دليل ہم درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں پاتے ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 اگر تمہيں علم نہيں تو اہل علم سے دريافت كرو النحل ( 43 ).

تو اس طرح ہر علاقے اور ملك كے لوگوں پر لازم ہے كہ وہ اہل علم سے دريافت كريں، اور ان كے فتاوى جات پر عمل كريں، ليكن يہ مطلقا اتباع و پيروى نہيں كہ كوئى بھى شخص كسى مفتى يا عالم دين كے پيچھے لگ جائے اور اسے معصوم اور تقديس كى صفت سے نواز كر اسے اللہ كے دين ميں تصرف كا حق دينا شروع كر دے ـ جس طرح يہود و نصارى اور غالى قسم كے رافضيوں اور صوفيوں اور باطني فرقوں ميں ہوا ـ كيونكہ يہ دين سے خروج اور اللہ كے علاوہ دوسروں كو رب اور شريك بنانا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 انہوں نے اپنے علماء اور درويشوں و راہبوں كو اللہ كے علاوہ رب بنا ليا، اور مسيح بن مريم كو بھى، حالانكہ انہيں تو يہى حكم ديا گيا تھا كہ وہ ايك اللہ كى عبادت كريں، اس كے علاوہ كوئى معبود نہيں، وہ اللہ تعالى اس سے پاك و منزہ ہے جو وہ شرك كرتے ہيں التوبۃ ( 31 ).

علماء كرام كے فتاوى پر چلنے سے مقصود يہ ہے كہ ان لوگوں كے ذريعہ حكم شرعى كى تعليم تك پہنچا جائے جو اس فن ميں ماہر ہيں اور انہوں نے شرعى قواعد و اصول كى تعليم حاصل كى اور دليل پر مبنى علم كى بنا پر اہليت حاصل كرنے ميں كامياب ہوئے، نہ كہ رب يا ولايت وغيرہ دوسرے خرافاتى ناموں كى تقديس كى بنا پر.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے مخلوق پر اپنى اور اپنے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت فرض كى ہے، اس امت پر ہر معاملہ ميں كسى ايك كى اطاعت فرض نہيں كہ اس كى ہر بات تسليم كى جائے، صرف يہ حق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حاصل ہے كہ ہر معاملہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كى جائيگى.

حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد اس امت كے سب سے افضل شخص صديق اكبر رضى اللہ تعالى عنہ كا كہنا ہے: جب تك ميں اللہ كى اطاعت كروں تو تم بھى اس ميں ميرى اطاعت كرو، اور جب ميں اللہ كى نافرمانى كروں تو تم اس ميں ميرى اطاعت مت كرو.

اور سب كا اتفاق ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے علاوہ اس امت كا كوئى شخص معصوم نہيں، كہ اسى ليے كئى ايك علماء كرام كا كہنا ہے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے علاوہ ہر شخص كى بات رد كى جا سكتى ہے، اور اسے تسليم بھى كيا جا سكتا ہے، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بات رد نہيں ہو سكتى " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 20 / 211 ).

دوم:

يہاں بااعتماد اہل علم يا مرجع كى تعيين كا سوال باقى رہ جاتا ہے:

اس ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ:

امت اور افراد كے حساب سے دو مرجع ايسے ہيٹں جن كى طرف رجوع كرنا ضرورى ہے وہ درج ذيل ہيں.

1 - دور حاضر كے مراجع:

جو فقہ اكيڈمى اور شرعى كميٹيوں كى صورت ميں پائى جاتى ہيں جنہيں اہل علم و دين اور امين حضرات ہينڈل كرتے ہيں، اسى طرح شرعى علوم ميں ماہر افراد كو بھى يہ وافر حصہ حاصل ہے كہ لوگ ان كى راہنمائى سے استفادہ كريں، اور ان كے اقوال مانيں، خاص كر روز مرہ زندگى كے امور اور معاصر فقہى مسائل اور مشكلات ميں.

اور ان مسائل ميں بھى جو شرعى اور ان عقلى دلائل كى روشنى ميں اجتھاد اور اعادہ نظر كے متحتاج ہيں، جو مصالح كو مدنظر ركھيں، اور فساد كو ختم كريں، اور مشقت و ضرر اور حرج پيدا نہ كريں.

اگر ان مذاہب اربعہ ميں سے كسى ايك كى تقليد حرج و تنگى كا باعث بنے تو يہ نہ كريں، كيونكہ شريعت اسلاميہ تو آسانى و سہولت پر مشتمل ہے اس ميں نہ تو تنگى ہے اور نہ ہى كوئى مشكل و حرج.

2 - مرجع التراثيہ:

يہ مشہور مذاہب اربعہ كى صورت ميں ہے: يعنى حنفى، مالكى، شافعى اور حنبلى مسلكوں پر لوگوں كا لازم رہنے ميں بذاتہ ان مسالك كا بہت بڑا دخل ہے، كيونكہ اس سلسلہ ميں لوگ جن قوانين اور اصول قواعد پر عمل كرتے ہيں، اور مساجد و مدارس ميں جو تعليمى منہج مقرر ہے، علمى ميدان كے مراتب جن ميں علوم فقہ اور شريعت كے ماہر افراد بتدريج چلتے ہيں، اور وہ ورثہ جس كا عوام كے ذہنوں ميں مستقر ہونا ضرورى ہے جو ان كى فقہى ثقافت كى تشكيل كرے، اور اكثر مسائل كى سرچ كرنے كى فرصت نہ ركھنے اور اس ميں كسى نتيجہ پر نہ پہنچے والے مجتہدين كے ليے سيراب ہونے كى جگہ، اور معاشرے ميں نزاع و اختلاف كى بيخ كنى كرنے كا ضابطہ، اور شاذ قسم كى آراء و خواہشات كا دروازہ بند اس سے ہو سكتا ہے كہ مذاہب اربعہ كى طرف رجوع كيا جائے اور اتباع و پيروى اختيار كى جائے.

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ كى حكمت كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ: لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كا علم و فضل اور درايت احكام و فتوى ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے، وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاوى پر چلنے لگے، اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب احاطہ تحرير ميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتى كہ ہر ايك امام كا مسلك اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كر ديے كہ احكام معلوم ہوں اور حلال و حرام كے مسائل معلوم ضبط كيے جا سكيں.

يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايك اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہر احمق كى جانب سے عجيب و غريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرات كے ساتھ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پر فخر بھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوى كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں.

ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناك دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كى جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے.

لكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تك ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتھاد كے درجہ تك پہنچنے كا دعوى كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقليد كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تك نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقليد كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہو گا. انتہى

ديكھيں: الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ ( 2 / 624 ).

اور ايك دوسرى جگہ لكھتے ہيں:

" اگر يہ كہا جائے: امام احمد وغيرہ نے جو اپنى كتاب اور كلام ميں تقليد كرنے سے منع كيا ہے اس كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں، اور پھر امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے:

ميرى اور فلان اور فلان كى كلام مت لكھو، بلكہ جس طرح ہم نے سيكھا ہے اور تعليم حاصل كى ہے اس طرح تم بھى تعليم حاصل كرو، آئمہ كى كلام ميں يہ بہت موجود ہے ؟

اس كے جواب ميں كہا جائيگا كہ: بلاشك و شبہ امام احمد رحمہ اللہ فقہاء كى آراء لكھنے اور حفظ كرنے ميں مشغول ہونے سے منع كيا كرتے تھے، بلكہ كہتے كہ كتاب و سنت كى فہم اور تعليم و تدريس اور حفظ ميں مشغول ہوا جائے، اور صحابہ كرام اور تابعين عظام كے آثار لكھا كريں، ان كے بعد والوں كى نہيں، اور اس ميں سے صحيح اور ضعيف، شاذ و مطروع قول كو معلوم كريں.

بلاشك اس يہ سے تعين ہو جاتا ہے كہ كتاب و سنت كى تعليم كا اہتمام كرنا كسى دوسرے كام ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے، بلكہ پہلے اس كى تعليم حاصل كى جائے.

لہذا جو يہ جان لے اور اس كى معرفت كى انتہاء تك پہنچ جائے ـ جيسا كہ امام احمد نے اشاہ كيا ہے ـ تو اس كا علم تقريبا امام احمد كے قريب ہو گيا، تو اس پر كوئى روك ٹوك نہيں اور نہ ہى اس كے متعلق كلام كى جا رہى ہے، بلكہ كلام تو اس شخص كے متعلق ہے جو اس درجہ تك نہيں پہنچا، اور نہ ہى وہ اس كى انتہاء كى پہنچا ہے، اور نہ اس نے كو سمجھا ہے ہاں قليل سا علم ضرور ہے، جيسا كہ اس دور كے لوگوں كى حالت ہے.

بلكہ كئى زمانوں سے اكثر لوگوں كا يہى حال ہے، وہ انتہاء درجہ تك پہنچنے اور غايت كو پانے كا دعوى كرتے ہيں، حالانكہ وہ تو ابتدائى درجات تك بھى نہيں پہنچ سكے " انتہى.

ديكھيں: الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ ( 2 / 624 ).

تشريع اور فقہ كى تاريخ پر نظر ركھنے والا جانتا ہے كہ سب مراحل ميں اس كى بنا مشہور اہل علم پر ہے جن كا لوگوں ميں علم معروف و مشہور تھا، اور ان كى فضيلت اور تقوى و ورع ہر علاقے ميں پھيل چكا تھا، لوگ ان سے احكام دين اخذ كرتے اور غالبا ان ہى كے فتاوى و تقارير كى طرف رجوع كرتے تھے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" امت ميں فقہ و دين اور علم ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ اور زيد بن ثابت اور عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہم كے اصحاب سے پھيلا، تو عام لوگوں نے ان چار لوگوں سے علم حاصل كيا، رہا اہل مدينہ كا تو انہوں نے زيد بن ثابت اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے ليا، اور اہل مكہ كا علم عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے ہے، اور اہل عراق كا علم عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے ہے " انتہى

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 17 ).

علامہ محقق احمد پاشا تيمور رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ان مذاہب كے پيدا ہونے سے قبل صحابہ كرام اور تابعين كے دور ميں فتوى انہيں سے ليا جاتا تھا، كيونكہ صحابہ كرام اور تابعين عظام حاملين كتاب اللہ ميں سے تھے، اور وہ اس كے دلائل كى پہچان ركھنے والوں ميں سے تھے، جب ان كا دور گزر گيا اور تو ہر علاقے اور شہر كى لوگوں نے صحابہ كرام كے فتاوى پر عمل كرنا شروع كر ديا جو صحابى جس علاقے ميں تھا اس كا فتوى اس علاقے ميں چلنا شروع ہوا، بہت ہى كم دوسرے كے فتوى پر چلتے تھے.

اس ليے اہل مدينہ ميں اكثر فتاوى عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے، اور اہل مصر ميں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما كے اور اہل مكہ عبد اللہ بن عباس اور اہل كوفہ عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم كے فتاوى پر چلنے لگے.

تابعين كے بعد فقھاء كا دور شروع ہوا مثلا ابو حنيفہ اور امام مالك اور احمد بن حنبل اور شافعى وغيرہ جن كا ہم ذكر كر چكے ہيں، اور جن كا ذكر ہم نے نہيں كيا، چنانچہ ہر علاقے اور ملك كے لوگوں نے اپنے فقيہ كے مسلك كو اختيار كيا، اور پھر يہ مسلك دوسرے علاقوں ميں بھى پھيل گيا اور بعض ميں ختم ہو گيا .... " انتہى

ديكھيں: مذاہب الاربعۃ ( 16 - 17 ).

اس كا يہ معنى نہيں كہ كسى مذہب اور قول كا تعصب اختيار كر ليا جائے اور دوسرا تسليم ہى نہ كريں، وہ اس طرح كہ ہم لوگوں پر حرف بحرف بغير كسى اجتہاد اور صحيح اور تعديل كرنے كے اسے لوگوں پر تھوپ ديں چاہے وہ كتاب و سنت كے خلاف ہى ہو.

بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ لوگ جس مدرسہ سے نكليں اور طالب علم اور علماء بنيں تو يہ مدرسہ كسى ان مذاہب اربعہ ميں سے كسى ايك مذہب سے ماخوذ ہو، پھر اگر اجتہاد كى اہليت ركھنے والے كے ليے اس مسلك كى كوئى غلطى سامنے آئے تو وہ اس مسلك كا فتوى ترك كرتے ہوئے دوسرے مسلك كى صحيح بات كو تسليم كر لے.

تو اس طرح وہ علمى راہ محفوظ رہے گى جس پر سلف آئمہ كرام چلے تھے، اور لوگ ان سلبيات سے چھٹكارا حاصل كر لينگے جو جہالت و تعصب كى بنا پر پيدا ہو چكى ہيں.

شيخ محمد بن ابراہيم كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" مذاہب اربعہ ميں سے كوئى ايك مسلك اختيار كرنا جائز ہے، بلكہ يہ اجماع كى طرح ہے، اس ميں كوئى ممانعت نہيں كہ آئمہ اربعہ ميں سے كسى ايك كى طرف منسوب ہوا جائے كيونكہ بالاجماع يہ امام ہيں.

ليكن اس سلسلہ ميں لوگ تين قسم كے ہيں:

ايك تو درميانہ طبقہ ہے اور دوسرے اس درميانہ طبقے كے دونوں اطراف ميں:

پہلى قسم يہ ہے كہ:

وہ لوك جو كوئى بھى مسلك اختيار كرنے كو جائز نہيں سمجھتے، اور يہ غلط ہے.

دوسرى قسم:

اور كچھ لوگ ايك ہى مذہب پر جم گئے ہيں اور ان ميں تعصب پايا جاتا ہے، اور وہ بحث كى طرف التفات بھى نہيں كرتے، يہ بھى غلط ہيں.

تيسرى قسم:

اور كچھ لوگ ايسے ہيں جو مذاہب اربعہ ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنا جائز سمجھتے ہيں، اس ميں كوئى ممانعت نہيں ديكھتے، جس مسلك كے پاس دليل ہوئى يا كسى اور كے پاس دليل ہو تو وہ اسے اختيار كرتے ہيں، اور جس مسئلہ ميں ان كے پاس نص ظاہر ہو وہ كسى مسلك كى طرف ديكھتے بھى نہيں بلكہ نص پر عمل كر ليتے ہيں.

اور جو لوگ نہ تو اس قسم ميں سے ہيں اور نہ ہى اس قسم ميں اور ان مسالك كے مخالف كے پاس دليل ہو تو وہ اس دليل والے كى بات تسليم كرتے ہوئے اس پر عمل كرتے ہيں.

ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 2 / 2 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى ميں درج ہے:

سوال:

مذاہب اربعہ ميں ہى مقيد رہنے اور ہر حالت اور دور ميں ان كے ہى اقوال پر عمل كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب:

كتاب و سنت سے استنباط كرنے كى استطاعت ركھنے والا شخص بالكل اسى طرح اخذ كريگا جس طرح اس سے پہلے والوں نے كتاب و سنت سے اخذ كر كے عمل كيا، اور جس ميں وہ اختلاف ركھے اور حق كچھ اور ديكھتا ہو تو اس كے ليے تقليد جائز نہيں، بلكہ وہ اس پر عمل كريگا جسے وہ حق ديكھتا ہے، اور جس سے وہ عاجز ہو اور اس كا محتاج ہو اس ميں دوسرے كى تقليد كرتا ہوا اس كے فتوى پر عمل كريگا.

جسے استباط كى قدرت نہ ہو تو اس كے ليے اس كى تقليد كرنا جائز ہے جس پر اس كا دل مطمئن ہو كہ اس كى دليل صحيح ہے، اور جب اس كو عدم اطمئنان حاصل ہو تو پھر نہيں حتى كہ اسے اطمئنان ہو جائے....

اوپر جو بيان ہوا ہے اس سے واضح ہوا كہ ہر حالت اور ہر دور ميں مذاہب اربعہ كے اقوال اور فتاوى جات پر عمل نہيں ہو گا؛ كيونكہ ان سے بھى غلطى ہو سكتى ہے، بلكہ ان كے جو حق اور صحيح اقوال ہيں ان كو تسليم كيا جائيگا جس كى دليل ہو" انتہى اختصار اور كچھ كمى و بيشى كے ساتھ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 28 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:

" اور يہ سب لوگ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد ہوئے، اور اپنے دور كے فضلاء افراد ميں شمار ہوتے تھے اللہ ان پر راضى ہو، انہوں نے قرآن و حديث اور صحابہ كے اجماع سے احكام اخذ كرنے ميں جدوجھد اور كوشش كى اور لوگوں كے سامنے حق بيان كيا، اور ان كے اقوال ہم تك نقل كيے گئے، اور سب علاقوں ميں مسلمانوں كے اندر ان كا مسلك پھيلا، اور بعد ميں آنے والے علماء ميں سے اكثر نے ان پر بھروسہ كرتے ہوئے كى پيروى كى، اور انہيں دين كا امين سمجھا، اور جن اصول پر انہوں نے اعتماد كيا اس كے موافق ديكھا، اور لوگوں ميں ان كے اقوال كو پھيلايا، عام لوگوں ميں جو كوئى بھى ان كے اقوال كو معلوم كرنے كے بعد ان كى تقليد كرتا ہے اسے چاہيے كہ وہ اس كے باوجود وہ اپنے دور كے علماء كرام سے بھى اس كے متعلق دريافت كرے، اور اس كے ساتھ حق كو دليل كے ساتھ سمجھنے ميں ممد و معاون بنے.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے واضح ہوا كہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تابع اور پيروكار تھے، نہ كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان آئمہ كے تابع، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو شريعت اسلام اللہ كى جانب سے لائے وہى اصل اور مرجع ہے.

يہ آئمہ كرام اور ان كے علاوہ دوسرے سب بھى اسى اصل كى طرف رجوع كرينگے، اور ہر مسلمان ملت ابراہيم حنيف اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا پيروكار ہونے كى وجہ سے حنيفيت كى طرف منسوب ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 54 - 55 ).

لہذا كتاب و سنت كى صحيح دليل كے ساتھ كسى كا قول تسليم كيا جائيگا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے علاوہ باقى سب كا بغير دليل قول رد بھى كيا جا سكتا ہے اور تسليم بھى.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (5523) ، (5459) ، (23280) ، (26269) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ