بيوى كو دو طلاقيں ديں اور بعد ميں بيوى نے خلع لے ليا كيا دوبارہ عقد نكاح ہو سكتا ہے ؟

ايك عورت نے اپنے خاوند سے خلع لے ليا ہے كيا خلع كے بعد خاوند كے واپس جانے كے ليے كوئى شروط ہيں ؟
اور اگر اس عورت كو خاوند نے دو طلاقيں دے ركھى تھى اور بعد ميں بيوى نے خلع حاصل كر ليا ہو تو ان كا آپس ميں دوبارہ نكاح ہونے كے ليے كيا شروط ہونگى ؟
كيا وہ كسى اور شخص سے نكاح كرے اور پھر اس سے طلاق لے كر پہلے خاوند سے نكاح كرے، يا كہ پہلے خاوند كے ساتھ نكاح كرنا ہى كافى ہو گا ؟

الحمد للہ:

اول:

جب خلع طلاق كے الفاظ سے نہ ہو اور نہ ہى اس سے طلاق كى نيت كى گئى ہو تو اہل علم كى ايك جماعت كے ہاں يہ فسخ نكاح ہے، اور امام شافعى رحمہ اللہ كے قديم مذہب ميں ايك قول يہى ہے، اور حنابلہ كے كا مسلك يہى ہے، جب يہ فسخ نكاح ہوگا تو اس كے نتيجہ ميں اسے طلاق ميں شمار نہيں كيا جائيگا، چنانچہ جس نے بھى اپنى بيوى كو دو طلاقيں ديں اور بعد ميں بيوى نے خلع حاصل كر ليا تو اسے نئے نكاح كے ساتھ رجوع كا حق حاصل ہے، اس كى مثال يہ ہے:

خاوند بيوى كو كہے: ميں نے اپنى بيوى سے اتنے مال ميں خلع كيا، يا پھر اتنے مال ميں اس كا نكاح فسخ كيا.

ليكن اگر خلع طلاق كے الفاظ ميں ہو مثلا خاوند كہے: ميں نے اپنى بيوى كو اتنى رقم كے عوض ميں طلاق دى تو جمہور اہل علم كے قول ميں يہ طلاق شمار ہوگى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 237 ).

اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ يہ بھى فسخ نكاح ہے، اور اگرچہ طلاق كے الفاظ ميں بھى ہو يہ طلاق شمار نہيں ہوگى، يہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسے اختيار كرتے ہوئے كہا ہے كہ يہ امام احمد رحمہ اللہ اور ان كے قديم اصحاب سے بيان كيا گيا ہے.

ديكھيں: الانصاف ( 8 / 393 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن راجح قول يہ ہے كہ يہ ( يعنى خلع ) طلاق نہيں چاہے صريح طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، اس كى دليل قرآن مجيد ميں اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:

{ يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں، پھر يا تو اچھائى سے روكنا ہے يا عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے }البقرۃ ( 229 ).

يعنى دونوں بار يا تو آپ روك ليں يا پھر چھوڑ ديں معاملہ آپ كے ہاتھ ميں ہے.

{ اور تمہارے ليے حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو دے ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى واپس لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو اس ليے اگر ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں }البقرۃ ( 229 ).

تو يہ تفريق فديہ شمار ہو گى پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:

{ اور پھر اگراس كوتيسرى بار طلاق دے دى تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك وہ عورت اس كے سوا دوسرے سے نكاح نہ كرے }البقرۃ ( 230 ).

اس ليے اگر ہم خلع كو طلاق شمار كريں تو فرمان بارى تعالى: " اگر وہ اسے طلاق دے دے " يہ چوتھى طلاق ہوگى، اور يہ اجماع كے خلاف ہے، اس ليے فرمان بارى تعالى: اگر اس نے اسے طلاق دے دى يعنى تيسرى طلاق تو " اس كے ليے حلال نہيں جب تك وہ عورت كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے "

اس آيت سے دلالت واضح ہے، اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہے: ہر وہ تفريق جس ميں عوض و معاوضہ ہو وہ خلع ہے طلاق نہيں، چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، اور راجح قول بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 467 - 470 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" چنانچہ ہر وہ لفظ جو معاوضہ كے ساتھ تفريق پر دلالت كرتا ہو وہ خلع ہے چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، مثلا خاوند كہے ميں نے اپنى بيوى كو ايك ہزار ريال كے عوض طلاق دى، تو ہم كہيں گے يہ خلع ہے، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى مروى ہے:

ہر وہ جس ميں معاوضہ ہو وہ طلاق نہيں "

امام احمد كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں:

ميرے والد صاحب خلع ميں وہى رائے ركھتے جو عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كى رائے تھى، يعنى يہ فسخ نكاح ہے چاہے كسى بھى لفظ ميں ہو، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا.

اس پر ايك اہم مسئلہ مرتب ہوتا ہے:

اگر كوئى انسان اپنى بيوى كو دو بار علحيدہ عليحدہ طلاق دے اور پھر طلاق كے الفاظ كے ساتھ خلع واقع ہو جائے تو طلاق كے الفاظ سے خلع كو طلاق شمار كرنے والوں كے ہاں يہ عورت تين طلاق والى يعنى بائنہ ہو جائيگى، اور اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى دوسرے سے نكاح نہيں كر ليتى.

ليكن جو علماء خلع كو فسخ نكاح شمار كرتے ہيں چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہوا ہو تو يہ عورت اس كے ليے نئے نكاح كے ساتھ حلال ہوگى حتى كہ عدت ميں بھى نكاح كر سكتى ہے، اور راجح بھى يہى ہے.

ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم خلع كرنے والوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ يہ نہ كہيں كہ ميں نے اپنى بيوى كو اتنى رقم كے عوض طلاق دى، بلكہ وہ كہيں ميں نے اپنى بيوى سے اتنى رقم كے عوض خلع كيا؛ كيونكہ ہمارے ہاں اكثر قاضى اور ميرے خيال ميں ہمارے علاوہ بھى يہى رائے ركھتے ہيں كہ يہ خلع اگر طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو تو يہ طلاق ہوگى.

تو اس طرح عورت كو نقصان اور ضرر ہوگا، اگر اسے آخرى طلاق تھى وہ بائن ہو جائيگى، اور اگر آخرى نہ تھى تو اسے طلاق شمار كر ليا جائيگا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 450 ).

اس قول كى بنا پر جس بيوى نے خاوند سے خلع حاصل كيا ہے اس كے خاوند كے ليے اس سے نيا نكاح كرنا جائز ہے، كيونكہ خلع طلاق شمار نہيں ہوتا.

دوم:

يہ جاننا ضرورى ہے كہ جب خاوند اپنى بيوى كو تين طلاق دے دے تو اس كے ليے وہ عورت اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ عورت كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت نہ كر لے اور اگر وہ شخص اسے اپنى مرضى سے طلاق دے دے يا پھر فوت ہو جائے تو وہ اپنے پہلے خاوند سے نيا نكاح كر سكتى ہے.

اور حكم پر حيلہ سازى كرنا جائز نہيں وہ اس طرح كہ عورت كسى شخص سے صورى نكاح كر لے اور پھر اس سے طلاق حاصل كرے تا كہ پہلے خاوند كے ليے حلال ہو، اسے حلالہ كہا جاتا ہے اور يہ حرام ہے.

اور اسى طرح اس خاوند كے ساتھ اس پر بھى اتفاق كرنا جائز نہيں كہ جب وہ اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال ہو جائے تو وہ اسے طلاق دے دے، كيونكہ اسے نكاح حلالہ كہا جاتا ہے اور يہ حرام اور كبيرہ گناہ ہے.

اس كى تفصيل سوال نمبر ( 109245 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ