فوت شدہ خاوند کی بیوی کی اپنے اصلی ملک واپسی

میرے سوال کا تعلق میری والدہ کی عدت سے ہے :
میرے والدین امریکہ کی سیرکے گۓ تو والد صاحب وہیں بہت بیمار ہونے کے بعد وفات پا گۓ ، تواس وقت سے لیکر ابھی تک والدہ امریکہ میں اسی گھر میں رہائش پذیر ہیں جہاں وہ والد صاحب کے ساتھ رہتی تھیں اوریہ گھر ہمارے ایک رشتہ دارکی ملکیت ہے ۔
توسوال یہ ہے کہ : کیا میری والدہ پر اپنی عدت وہیں گزارنا واجب ہے یا کہ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے وطن واپس پاکستان واپس آجائيں ؟
معاملات کی پیروی کرنے کے لیے ان کا پاکستان واپس آنا بہت ہی اہم ہے مثلا املاک وغیرہ کے معاملات ۔۔۔ الخ میرے سوال کا شریعت اسلامیہ کےمطابق جواب دینے کے لیے میں آپ کا ممنون ومشکور ہوں گا

الحمد للہ
خاوند کی وفات کے بعد عدت گزارنے والی عورت کا گھر میں رہ کرعدت گزارنے میں علماء کرام کے دو قول ہیں :

ان میں سے مشہور اورقوی قول یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھرمیں ہی عدت گزارے ۔

اکثر علماء کرام جن میں آئمہ اربعہ بھی شامل ہيں کا یہی قول ہے ان کی دلیل میں مندرجہ ذيل حدیث شامل ہے :

فریعہ بنت مالک رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئيں اوران سے سوال کیا کہ اس کا خاوند اپنے بھاگے ہوۓ غلاموں کوتلاش کرنے نکلا اورجب وہ ان کے قریب جا پہنچا توانہوں نے اسے قتل کردیا توکیا وہ اپنے خاندان بنو خدرہ میں واپس چلی جاۓ کیونکہ میرے خاوند نے مجھے اپنی ملکیت والے گھر میں نہیں چھوڑا ؟

وہ بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا جی ہاں آپ جاسکتی ہیں ، تو میں واپس پلٹی اورابھی کمرہ یا مسجد میں ہی تھی توانہوں نے مجھے بلایا ، یا پھر مجھے حکم دیا ، میں وہی قصہ دوبارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دھرایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ تم اپنے گھر میں ہی رہو حتی کہ تمہاری عدت ختم ہوجاۓ ۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نے اس گھر میں چارماہ دس دن عدت گزاری ، اورجب عثمان رضي اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا وقت آیا توانہوں نے مجھ سے اس کے متعلق سوال کیا اورمیں نے انہیں بتایا توانہوں نے بھی اسی کی پیروی کرتے ہوۓ فیصلہ کیا ۔ سنن ابوداود ، سنن نسائي ، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، امام ترمذی ، ابن حبان ، حاکم ، اورابن نعیم رحمہم اللہ تعالی وغیرہ نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : اس میں ایسی کوئي چیز نہيں جوسنت صحیحہ کورد کرنے کا باعث ہو جسے عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ اوراکابر صحابہ کرام نے قبول کیا ۔ اھـ دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 691 )۔

فائدہ :

بعض اوقات عدت گزارنے والی عورت اوریا پھر اس کے گھر میں کوئی اضطراری حالت پیدا ہوسکتی ہے مثلا : ڈر اورخوف ، انہدام ، غرق ، یا پھر دشمن کاخوف ، یا وحشت ، یا یہ کہ وہ فاسق فاجر لوگوں کے درمیان رہائش پذیر ہو ، یا پھر اس کے ورثہ اسے وہاں سے لانے کا ارادہ کرلیں ، یا پھر اس کا وہاں رہنا اولاد یا مال ودولت کے ضیاع کا باعث بن جاۓ ، وغیرہ ۔

احناف ، حنابلہ ، مالکیہ کے جمہور علماء کے ہاں اس حالت میں اس کے لیے وہاں سے اپنی مرضی کی رہائش میں منتقل ہونا جائز ہے ، اوراس کے لیے لازم نہیں کہ وہ قریبی رہائش اختیار کرے بلکہ وہ جہاں چاہے رہ سکتی ہے ۔

لیکن شرط یہ ہے کہ اس دوسری رہائش میں بھی وہ ان احکام کی پابندی کرے گی جوپہلی رہا‎ئش میں کرتی تھی ۔

اورجوعورت اپنے خاوند کی فوتگی کے وقت والے گھرمیں رہتے ہوۓ اپنے معاملات کوچلا سکتی ہو اسے وہاں سے منتقل ہونا صحیح نہیں کیونکہ اس کا کوئی عذر نہیں ہے ، مثلا وہ وراثت یا املاک کےبارہ میں کسی معتبرشخص کووکیل بناسکتی ہے ۔

اس بنا پر اگر آپ کی والدہ جس گھرمیں اپنے خاوند کی فوتگی کے وقت رہ رہی تھی وہاں پر عدت گزارسکتی ہے اوراس کے لیے ممکن ہے تووہ اسی گھرمیں عدت گزارے ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ