عقد نکاح کرتے وقت شادی کی نیت نہیں تھی

میں نے ایک لڑکی سے سفید شادی – کسی منفعت اورمصلحت کی وجہ سے – نکاح کیا تھا ، اورقانونی اعتبارسے تو یہ شادی صحیح اورسلیم تھی کیونکہ ہم نے یہ شادی باقاعدہ گواہوں کی موجودگي اورلڑکی کے والدین اوراپنے والدین کی موجودگی مین اندراج کروائي تھی ۔
لیکن میری نیت شادی کرنے کی نہیں تھی کہ میں حقیقتا شادی کررہا ہوں نیت یہ تھی کہ قانون کے سامنے ہم یہ ظاہر کریں گے کہ شادی شدہ ہیں ، عقد نکاح کو پانچ برس گزرنے کے باوجود ہم نے ازدواجی تعلقات قائم نہیں کیے ، اوراب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم علیحدہ نہ ہوں اور نہ ہی میں اسے طلاق دوں بلکہ ہم خاوند اوربیوی بن کررہنا چاہتے ہیں ۔
اب ہماری نیت شادی کرنے کی ہے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں تجدید نکاح کرنا ہوگا کہ نہیں ؟

الحمد للہ
سفید شادی نامی کوئي چیز نہیں ہے بلکہ جب شروط کے ہوتے ہوئے ایجاب وقبول ہو جائے تونکاح واجب ہوتا ہے چاہے عقد نکاح کرنے والے طرفین یا ان میں کوئي ایک طرف یہ نکاح بطور کھیل یا مذاق ہی کررہا ہو ۔

احناف ، حنابلہ کا مسلک یہی ہے اورمالکیہ کے ہاں بھی یہی معتبر ہے اورشوافع بھی اسے ہی صحیح قرار دیتے ہيں ۔

دیکھیں فتح القدیر ( 3 / 199 ) المغنی لابن قدامہ ( 7 / 61 ) کشاف القناع ( 5 / 40 ) حاشیۃ الدسوقی ( 2 / 221 ) بلغۃ السالک ( 2 / 350 ) نھایۃ المحتاج ( 6 / 209 ) روضۃ الطالبین ( 8 / 54 ) ،

ان سب کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :

ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تین چيزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت بھی حقیقت ہی ہے اور مذاق بھی حقیقت ہی ہے ، نکاح ، طلاق ، اوررجوع کرنا ) ۔

سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2194 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 11849 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2039 ) اس حدیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے التلخیص الحبیر ( 3 / 424 ) میں حسن قرار دیا ہے ، اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 944 ) میں بھی حسن کہا ہے ۔

یعنی یہ تین کام حقیقی طور پر کیے جائيں تو حقیقی ہوں گے اوراگر یہ بطورمذاق کیے جائیں تو بھی حقیقت ہی ہوں گے ۔

اورھزل سے مراد یہ ہے کہ لفظ سے وہ معنی مراد لیا جائے جس کے لیے لفظ بنایا نہیں گیا ، اوریہ اسی فعل پر منطبق ہوتا ہے جو آپ لوگوں میں عقدنکاح میں کیا ہے کیونکہ تم نے عقدنکاح کا اندراج تو کروایا ہے اورشادی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

( عام علماء کرام کے ہاں مذاق میں طلاق دینے والے کی بھی طلاق واقع ہوجائے گی ، اوراسی طرح اس کا نکاح بھی صحیح ہے جیسا کہ مرفوع حدیث کے متن بھی اس کا ذکر ہے ، اورصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم اورتابعین عظام رحمہم اللہ کے ہاں بھی یہی ہے اور جمہور علماء کرام کا بھی یہی قول ہے ) دیکھیں الفتاوی الفقھیۃ الکبری ( 6 / 63 ) ۔

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

( مراسیل حسن میں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ سے بیان کرتے ہیں :

جس نے بطور کھیل نکاح کیا یا طلاق دی یا بطور کھیل غلام آزاد کیا تویہ ہوگيا ) ۔

اورعمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :

چار چيزیں ایسی ہیں جب ان کے بارہ میں بات کی جائے تو وہ جائز ہوجاتی ہيں : طلاق ، آزاد کرنا ، نکاح ، اورنذر ماننا ۔

اورامیرالمومنین علی رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

تین چيزیں ایسی ہیں جن میں کوئي مذاق اورکھیل نہیں : طلاق ، غلام آزاد کرنا ، اورنکاح کرنا ۔

اورابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ :

تین چيزوں میں کھیل بھی حقیقت پر مبنی ہے : طلاق ، غلام آزاد کرنا ، اورنکاح کرنا ۔

اورابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہيں : نکاح چاہے مذاق میں ہو یا حقیقت میں یہ برابر ہے ۔ انتھی ۔

دیکھیں اعلام الموقعین ( 3 / 100 ) ۔

تواس بنا پر آپ کے لیے تجدید نکاح کرانا ضروری اورلازم نہیں ، بلکہ آپ پہلے ہی نکاح پرخاوند اوربیوی ہیں ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ