سوال: میں نوجوان لڑکی ہوں، میری ابھی شادی ہوئی ہے، میں نے اسلام سوال وجواب ویب سائٹ پر تلاش کیا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ منی خارج ہوئے بغیر آلہ تناسل داخل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، لیکن رمضان میں میاں بیوی کیلئے آپس میں خوش طبعی کرتے ہوئے خوب احتیاط سے کام لینا واجب ہے، مجھے رمضان میں جماع کے بغیر منی خارج ہونے کے بارے میں علمائے کرام کی مختلف آراء بھی پڑھنے کو ملیں، ہوا یوں کہ رمضان میں دن کے وقت ہم میاں بیوی کی آپس میں خوش طبعی ہوئی اور دخول بھی ہوگیا، لیکن اس بات کا خیال رکھا گیا کہ میرے شوہر کی منی خارج نہ ہو، جماع سے فارغ ہونے کے بعد میرے خاوند نے کہا کہ : مجھے شک پڑ رہا ہے کہ جماع سے فراغت کے کچھ ہی بعد مجھے لگتا ہے کوئی چیز میرے جسم سے خارج ہوئی ہے، اب اسے نہیں معلوم کہ وہ منی تھی یا مذی ؟ تو میں نے انہیں کہا کہ وہ اپنے عضو کو پکڑ لیں تا کہ کوئی اور چیز مزید خارج نہ ہو، تو انہوں نے ایسے ہی کیا۔
اب ہمارا کیا حکم ہے؟ کیا قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازمی دیناہوگا؟ ذہن نشین رہے کہ میرے خاوند کو کفارے کی اس قسم کا بالکل بھی علم نہیں تھا، اور اس نے میرےمتنبہ کرنے کے بعد اپنے عضو کو فورا پکڑ لیا تھا، اس لئے کچھ بھی خارج نہیں ہوا، اور جو خارج ہوا تھا اسکی مقدار اتنی کم تھی کہ میرے خاوند کو پتا ہی نہیں چلا کہ یہ مذی ہے یا منی۔
الحمد للہ:
پہلی بات:
سائلہ کا کہنا کہ اس نے ہماری ویب سائٹ پر تلاش کیاتو اسے معلوم ہوا کہ "منی خارج ہوئے بغیر دخول کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا" درست نہیں ہے، ہماری ویب سائٹ پر ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ اسکے برعکس موجود ہے؛ کیونکہ دخول ہی جماع ہے، اور جماع سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور کفارے کا بھی موجب ہے، اس بات پر سب کا اجماع ہے۔
جیسے کہ ہماری ویب سائٹ پر سوال نمبر (
148163) میں موجود ہے کہ:
"جو شخص رمضان میں سفر پر نہ ہو، اور روزہ رکھ کر دن کے وقت ہمبستری کرے، تو اس پر سخت کفارہ لازم ہوگا، جو کہ ایک غلام آزاد کرنا ہے، اور اگر غلام نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہیں، اور اگر اسکی بھی طاقت نہ رکھے تو اسے ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہوگا، اسے اپنے گناہ سے توبہ بھی کرنا ہوگی، اور اس دن کا روزہ بھی دوبارہ رکھنا ہوگا"
رضا مندی کی صورت میں عورت کا بھی یہی حکم ہے، منی خارج ہونے یا نا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چنانچہ اگر آلہ تناسل داخل ہوگیا تو کفارہ لازم ہوجائے گا" انتہی
"الموسوعة الفقهية" (35/ 55) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص رمضان کے دن اندام نہانی میں جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے جماع کرے، تو اس پر کفارہ لازم ہے، چاہے منی خارج ہو یا نا ہو" انتہی
ہو سکتا ہے سائلہ نے مباشرت ، یا خوش طبعی کے بارے میں گفتگو پڑھی ہو کہ ایسی صورت میں اگر انزال نہ ہوتو روزہ فاسد نہیں ہوتا؛ اور اس سے سائلہ نے یہ گمان کیا ہوکہ مباشرت سے مراد جماع ہے؛ آپکا یہ گمان غلط ہے، جیسے کہ ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں، مباشرت اور خوش طبعی سے مراد اندام نہانی میں دخول کے بغیر بیوی سے مزے لینا [Foreplay]ہے۔
آپ سوال نمبر: (
95383) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
دوسری بات:
صحیح قول کے مطابق منی خارج ہونے سے روزہ ٹوت جاتا ہے، چاہے بغیر جماع کے منی خارج ہو، جمہور علمائے کرام اسی کے قائل ہیں، اور اس بارے میں اجماع بھی نقل کیا گیا ہے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر خاوند بوس وکنار یا اندام نہانی سے ہٹ کراپنے آلہ تناسل سے مباشرت کرے، یا بیوی کی جسم کو اپنے ہاتھ وغیرہ سے چھوئے تو منی خارج ہونے پر روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اگر منی خارج نا ہوتو روزہ نہیں ٹوٹے گا، صاحب کتاب"الحاوی" اور دیگر علمائے کرام اس بات پر اجماع ہونے کے قائل ہیں، کہ بوس وکنار یا اندام نہانی سے ہٹ کر مباشرت کرنے پر منی خارج ہونے سے روزہ ٹوٹ جائے گا"انتہی
"المجموع شرح المهذب" (6/ 322)
ابن رشد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ بوس و کنار کی وجہ سے منی خارج ہونے پر روزہ ٹوٹ جائے گا"انتہی
"بداية المجتهد" (2/ 52)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"بوس وکنار سے منی خارج ہونے پر ۔۔۔ روزہ ٹوٹ جائے گا، اس بارے میں ہمیں کسی کے اختلافِ رائے کا علم نہیں ہے"
"المغنی" (3/ 127)
تیسری بات:
رمضان میں دن کے وقت میاں بیوی کو آپس میں خوش طبعی سے سخت احتیاط کرنی چاہئے، اور جسے اندیشہ ہو کہ وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہیں کر پائے گا تو وہ خوش طبعی کے قریب بھی نہ جائے، تا کہ دین اور عزت محفوظ رہ سکیں۔
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"میں روزہ دار کو بوس و کنار کی رخصت دینے والے کسی ایسے عالم کو نہیں جانتا جو بوس وکنار کے نتائج سے محفوظ رہنے کی شرط نہ لگاتا ہو، چنانچہ جس شخص کو بوس وکنار کے نتائج میں ملوث ہونے کا خدشہ ہو تو اس پر بوس وکنار سے بھی اجتناب کرنا ضروری ہے"انتہی
"الاستذكار" (3/ 296)
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر (
107335) کا بھی مطالعہ کریں۔
چوتھی بات:
جو شخص رمضان میں دن کے وقت ہمبستری کی ممانعت سے لاعلمی کی بنا پر جماع کر بیٹھے اس کے بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں، حنابلہ کا موقف ہے کہ اس پر قضا اور کفارہ دونوں لازم ہونگے ، دائمی فتوی کمیٹی نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
جبکہ راجح بات یہی ہے کہ جو شخص اسکی ممانعت سے جاہل تھا، تو اسکا عذر قبول کیا جائے گا، اور اس پرکچھ نہیں ہوگا۔
"حاشية الروض"(3/ 411) میں کہتے ہیں:
"ابن عبد البر کہتے ہیں کہ : بھول کر کھانے یا ہمبستری کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، بہت سے اہل علم اسی بات کے قائل ہیں کہ شک، زبردستی، یا لاعلمی کی بنا پر ہونے والا جماع بھی شک ، زبردستی، اور لاعلمی کی بنا پر روزے کی حالت میں کھا پی لینے کی طرح ہے"انتہی
لیکن یہاں ایک بات کی طرت توجہ رہے کہ ایک ہے کہ کسی کو حکم کا علم نہیں تھا، یہ شخص قابل عذر ہے-اگرچہ اس میں بھی اختلاف ہے-، اور دوسری بات یہ ہے کہ حکم کا تو علم ہے، لیکن اس پر ملنے والی سزا کا علم نہیں تھا، ایسا شخص قابل عذر نہیں ہوگا، چنانچہ جس شخص کو یہ پتا ہے کہ رمضان میں دن کے وقت جماع کرنا حرام ہے، لیکن اسے اس کے کفارے کا علم نہیں تھا تو ایسے شخص کو قابل عذر نہیں سمجھا جائے گا، اور اس پر کفارہ لازم ہوگا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ایک آدمی نے رمضان میں دن کے وقت بیوی سے جماع کر لیا، اور منی خارج نہیں ہوئی، اسے اس انداز سے جماع کرنے کے حکم کا علم نہیں تھا، لیکن وہ یہ جانتا تھا کہ انزال کے ساتھ جماع کرنا حرام ہے تو اب اسکا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
صحیح بات یہ ہے کہ جو شخص لا علمی کی بنا پر کسی ایسے کام کا ارتکاب کر لے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، یا احرام میں ممنوع کام کرلے، یا نماز کو فاسد کرنے والا کام کر بیٹھے تو اس پر کچھ نہیں ہوگا، چنانچہ یہ شخص جس نے رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کیا وہ یہ جانتا تھا کہ روزے کی حالت میں انزال کے ساتھ جماع کرنا حرام ہے، تو ایسے شخص پر کچھ نہیں ہے۔
اور اگر اسے علم تھا کہ جماع مطلقا حرام ہے، لیکن اسے کفارے کا علم نہیں تھا، تو اسے پر کفارہ ہوگا؛ کیونکہ حکم سے لاعلمی اور ملنے والی سزا سے لاعلمی دونوں میں فرق ہے، اس لئے کہ سزا سے لاعلمی کی بنا پر عذر قبول نہیں کیا جاتا، جبکہ حکم سے لاعلمی کی بنا پر عذر قبول ہوسکتا ہے"انتہی
واللہ اعلم .