الحمد للہ.
ملازمت کے دوران اتنی دیر جائے ملازمت پر رہنا لازم ہے جس پر دو طرفہ معاہدہ ہے، چاہے آپ کے پاس جائے ملازمت پر کام ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ ملازمت یا عقدِ اجارہ میں یہ چیز شامل ہوتی ہے۔ چنانچہ ملازم شخص اجیرِ خاص ہوتا ہے، اور اجیر خاص کے لیے اجرت مدت کے مطابق دی جاتی ہے، چنانچہ مخصوص مقدار میں وقت صرف اسی ملازمت کے لیے مختص کرنا لازم ہے۔ اور اگر ملازمین سے یہ کہہ دیا جائے کہ جب کام ہو تو تبھی آپ نے دفتر آنا ہے تو پھر ادارے معطل ہو جائیں گے؛ کیونکہ معاملات کنٹرول میں نہیں ہوں گے۔
ملازمت کے بارے میں یہی اصولی موقف ہے کہ ملازمت اجارہ خاصہ کا عقد ہوتا ہے جس میں مقررہ وقت دینا لازم ہے۔
تاہم اس سے ایسی صورت مستثنی کی جائے گی جس میں ملازم کو کسی ایسے کام یا مفاد کے لیے نکلنا پڑے جسے ڈیوٹی کے بعد تک مؤخر کرنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو پھر انتظامیہ کی اجازت سے جا سکتا ہے۔
اور اگر صورت حال ایسی ہو کہ جیسے آپ نے سوال میں ذکر کی ہے کہ ادارے میں آپ سے اوپر کوئی نہیں ہے جس سے آپ اجازت لیں تو پھر ہم یہ کہیں گے کہ: آپ کسی ایسی ضرورت کی بنا پر ادارے سے جا سکتے ہیں جسے ڈیوٹی کے بعد تک مؤخر کرنا مشقت کا باعث ہو، یہاں آپ اپنے آپ کو عام ملازم کی طرح سمجھیں گے، یعنی آپ اپنے آپ کو بھی صرف اتنی ہی اجازت دیں گے جتنی آپ دوسروں کو دیتے ہیں، بلکہ آپ کو دوسروں کے لیے عملی نمونہ ہونا چاہیے یعنی آپ اپنے آپ پر دوسروں سے زیادہ سختی کریں، اور زمینی حقائق بھی کچھ اسی طرح کے ہیں کہ جب ادارے کا ذمہ دار فرد ڈیوٹی سے جلدی چلا جائے تو پھر ماتحت ملازمین بھی جلدی نکلنے کی کرتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں، اور پھر خرابی پورے ادارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
آپ کے پاس موبائل ہے یا آپ ڈیوٹی کے بعد بھی آفس میں بیٹھے رہتے ہیں اس سے آپ کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی؛ کیونکہ ذمہ داری کی ادائیگی دوران وقت ہوتی ہے وقت گزرنے کے بعد نہیں ہوتی۔ دفتر میں پورا وقت دینا انسان کو سونپی گئی ذمہ داری میں شامل ہے چاہے ادارے میں کوئی نگران ہے یا نہیں ؛ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم [سونپی گئی ] ذمہ داری ان کے مستحقین تک پہنچاؤ۔[النساء: 58]
ابن کثیر رحمہ اللہ تفسیر ابن کثیر (1/673) میں کہتے ہیں:
"یہاں اللہ تعالی نے یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالی امانتیں اور ذمہ داریاں ان کے حقداروں کو دینے کا حکم دے رہا ہے۔ ایک حسن درجے کی حدیث میں سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو آپ کو امانت دار سمجھتے ہوئے امانت رکھوائے اس کی امانت اسے واپس کرو، اور جو آپ کی خیانت کرے اس کی آپ خیانت مت کرو) اس حدیث کو امام احمد اور اصحاب سنن نے روایت کیا ہے۔
یہ [آیت اور حدیث میں مذکور امانت اور ذمہ داری] انسان پر واجب ہونے والی تمام تر امانتوں کے متعلق ہے، چاہے اس کا تعلق نماز، زکاۃ ، کفارہ، نذر، اور روزے وغیرہ کی شکل میں حقوق اللہ سے ہو کہ ان تمام امور کو سر انجام دینے کی ذمہ داری بندے پر اس طرح عائد ہوتی ہے کہ کسی کو ان کا پتہ ہی نہ چلے۔ اسی طرح اس میں لوگوں کے باہمی حقوق بھی شامل ہیں مثلاً: امانت وغیرہ کہ لوگ جب دوسروں کے پاس امانتیں رکھواتے ہیں تو اس کی بھی کوئی ایسی دلیل نہیں ہوتی کہ سب کو علم ہو، تو اللہ تعالی نے اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ اگر کوئی امانت ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس سے یہ امانت واپس لی جائے گی۔" ختم شد
کام کاج اسی وقت معطل اور ناکام ہوتے ہیں جب اداروں کے ذمہ داران ڈیوٹی پر حاضری میں کوتاہی برتتے ہیں، جبکہ ایسے ادارے جن کے ذمہ داران وقت پر حاضر ہوں اور دوران ڈیوٹی کم ہی ادھر ادھر جاتے ہوں تو وہاں کے ملازمین سیدھے رہتے ہیں اور کام بھی وقت پر ہوتے ہیں۔
نگران ادارہ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اس کی ذمہ داریوں میں درج ذیل امور بھی شامل ہیں: ملازمین کی نگرانی ، ان کے کاموں کی پیروی، مکمل کردہ کاموں کی جانچ پڑتال، ضرورت پڑنے پر رہنمائی کرنا، اور انہیں اس چیز کا احساس دلانا کہ ان کی ہر چیز کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے لوگ بہت زیادہ سوالات کرتے ہیں اور ذمہ داری نبھانے کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے اس لیے اس کے متعلق ہم اہل علم کے فتاوی نقل کرتے ہیں:
- دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا: ادارے کے ملازمین سے مطلوب ہوتا ہے کہ دفتری ٹائم کے دوران دفتر میں موجود رہیں، لیکن ملازمین بغیر اجازت ہی مارکیٹ میں خرید و فروخت کے لیے چلے جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
کمیٹی نے جواب دیا کہ: "ڈیوٹی کے دوران خرید و فروخت کے لیے ملازم دفتر سے نہیں جا سکتا، یہ جائز نہیں ہے۔ چاہے انچارج کی جانب سے اسے اجات دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو؛ کیونکہ اس طرح سرکاری احکامات کی مخالفت لازم آتی ہے کہ سرکاری طور پر ایسے کرنا منع ہے۔ نیز اس لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اس کے ذمہ مسلمانوں کے حقوق سے متعلقہ اس کی جو ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہ ادا نہیں ہو گی، اور اس طرح مسلمانوں کی حق تلفی ہو گی یا اس ڈیوٹی کی ادائیگی کامل ترین شکل میں نہیں ہو پائے گی۔ امام ابو یعلی اور امام عسکری نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ جب تم میں سے کوئی کام کرے تو اسے نہایت عمدگی سے سر انجام دے۔) اس حدیث کو بیہقی اور طبرانی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔" ختم شد
دائمی فتوی کمیٹی: (23/415) - شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: سرکاری طور پر دفتری ٹائم مقرر کیا گیا ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ لیٹ آتے ہیں اور وقت مقررہ کے ختم ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے چلے جاتے ہیں، بسا اوقات ایک گھنٹہ یا اس سے بھی تاخیر کے ساتھ پہنچتے ہیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟
انہوں نے جواب میں کہا: "یہ تو بالکل واضح ہے کہ اس سوال کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے؛ کیونکہ معاوضہ تبھی ملے گا جب کام کیا جائے گا ۔ تو جس طرح سرکاری ملازم یہ چاہتا ہے کہ اس کی تنخواہ میں سے کسی قسم کی کٹوتی نہ ہو تو بالکل اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ ملازم بھی سرکار کے حق میں سے کسی قسم کی کمی نہ کرے، اس لیے ڈیوٹی کے وقت سے تاخیر مت کرے، اور نہ ہی ڈیوٹی ختم ہونے سے پہلے واپس جائے۔
سائل: لیکن کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے عذر پیش کرتے ہیں کہ: دفتر میں کام ہی نہیں ہوتا! کیونکہ کام بہت تھوڑا ہوتا ہے؟
شیخ: کام ہو یا نہ ہو آپ کے ذمہ وقت دینا ہے کام نہیں! یعنی آپ کو یہ کہا گیا ہے کہ آپ کی یہ تنخواہ اس چیز کی ہے کہ آپ اتنے وقت سے اتنے وقت تک دفتر میں حاضری دیں گے، چاہے دفتر میں کام ہو یا نہ ہو۔ لہذا تنخواہ جب تک وقت کے ساتھ منسلک ہے تو پھر آپ پر لازم ہے کہ دفتر میں پورا وقت گزاریں، اور اگر پورا وقت نہ گزاریں تو غیر حاضری کے وقت کی تنخواہ لینا ہمارے لیے حرام ہو گا۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (9/14) - آپ رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا گیا: کچھ ملازمین ڈیوٹی چھوڑ کر وقت ختم ہونے سے پہلے چلے جاتے ہیں، یا دوران ڈیوٹی اپنے کام کر کے پھر واپس آتے ہیں، یا وقت پر نہیں پہنچتے تو اس کا کیا حکم ہے؟
انہوں نے جواب میں کہا: "ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے سے پہلے چلے جانا، اور ڈیوٹی پر لیٹ پہنچنا ، اسی طرح ڈیوٹی کے دوران اپنے ذاتی کاموں کے لیے جانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ آپ کا یہ وقت سرکار کی ملکیت ہے آپ اس کے عوض ملکی خزانے سے معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ عام طور پر عرف یہ ہے کہ اگر ڈیوٹی کے دوران کہیں جانے کی ضرورت پڑے اور سربراہ ادارہ یا مدیر کی جانب سے اجازت لے، اور ملازم کے جانے کی وجہ سے کام پر کسی قسم کا منفی اثر بھی نہ ہو تو پھر مجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد - اسی طرح شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ایسے افسران جن سے ماتحت ملازمین کو رجوع کرنے کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے وہ ڈیوٹی ختم ہونے سے پہلے ظہر کے وقت دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر چلے جاتے ہیں اور پھر واپس آ کر ڈیوٹی کا وقت مکمل ہونے تک دفتر میں موجود ہوتے ہیں، تو کیا ان کا یہ طریقہ کار ٹھیک ہے؟ آپ انہیں کیا نصیحت کریں گے؟
تو انہوں نے جواب دیا: "ملازمین پر دفتر میں ڈیوٹی کے آغاز سے لے کر اختتام تک حاضر رہنا لازم ہے، دوران ڈیوٹی گھر چلے جانا یا ذاتی کاموں کو نمٹانے کے لیے نکلنا جائز نہیں ہے ضروری ہے کہ انسان ڈیوٹی کا وقت جائے ملازمت پر گزارے چاہے اس سے رجوع کرنے والوں کی تعداد تھوڑی ہو؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیوٹی کا وقت ملازمت کی ملکیت ہے اس کی اپنی ملکیت نہیں ہے اس لیے کہ ملازمت نے تنخواہ کے عوض اس وقت کو خرید لیا ہے، اس لیے ڈیوٹی کا وقت ذاتی کاموں کی وجہ سے کم نہ کرے، ہاں اگر کوئی عذر ہو تو ملازمت کے ضابطہ اخلاق کے دائرے میں رہے۔" ختم شد - ایسے ہی شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: کوئی ملازم ملازمت کے دوران روزانہ کی بنیاد پر دوران ڈیوٹی کہیں جا سکتا ہے؟ اس کے لیے دلیل یہ پیش کرے کہ کرنے کا کوئی کام ہی نہیں ہوتا! حالانکہ جس قدر وہ کام کرتا ہے اس کے مقابلے میں اس کی تنخواہ بہت زیادہ ہے ۔
تو انہوں نے جواب دیا: "کوئی بھی ملازم ڈیوٹی کے دوران اپنی جائے ملازمت سے ڈیوٹی ختم ہونے سے پہلے نہیں جا سکتا چاہے وہ فارغ ہی کیوں نہ ہو، چاہے اس کی تنخواہ تھوڑی ہے یا زیادہ اپنی جائے ملازمت کو چھوڑ کر کہیں نہ جائے۔ تاہم اگر کوئی اچانک ضرورت پڑی ہے، یا کوئی ایسا معاملہ ہو گیا ہے کہ اسے جانا ہی پڑے گا مثلاً: بیماری یا ضروری کام وغیرہ کہ جسے نمٹائے بغیر چارہ نہیں ہے اسے نمٹانے کے بعد ڈیوٹی پر دوبارہ حاضر ہو جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا وقت سرکار یا اس کمپنی کی ملکیت ہے جس میں وہ کام کر رہا ہے۔ ہاں اگر ملازم کی ذمہ داری فیلڈ ورک ہے تو پھر وہ اپنا کام نمٹا کر کہیں بھی جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد
ماخوذ از: "فتاوى مهمة لموظفي الأمة"
واللہ اعلم