ايك شخص نے اپنى بيوى كو حج كرنے كے ليے پيسے ديے اور موسم حج سے پہلے ہى فوت ہو گيا تو كيا بيوى پر ان پيسوں سے حج كرنا فرض ہے، يا كہ وہ دوسرے اخراجات ميں يہ رقم خرچ كر سكتى ہے، برائے مہربانى دونوں حالتوں ميں اسباب بھى بيان فرمائيں ؟
الحمد للہ:
جى ہاں بيوى كو جب بھى استطاعت ہو اور اس كے ساتھ جانے كے ليے محرم ہو تو اس پر ان پيسوں سے حج كرنا واجب ہوگا، كيونكہ خاوند نے تو اسے حج كے ليے ہى رقم ادا كى ہے يہ ظاہر ہے كہ اگر خاوند كو علم ہو جاتا كہ وہ ان پيسوں سے حج نہيں كريگى تو وہ يہ رقم بيوى كو نہ ديتا.
اصل ميں چندہ وغيرہ كے بارہ ميں يہى ہے كہ جس چيز كے ليے وہ پيسے مخصوص كيے گئے ہوں وہ نيكى كے اسى كام ميں صرف كيے جائيں گے، اس ليے كسى دوسرے كام ميں صرف كرنا جائز نہيں.
ليكن اگر عام ہو يعنى دينے والے نے كوئى مخصوص كام نہيں ركھا تو پھر يہ پيسے سب نيكى كے كاموں ميں لگائے جا سكتے ہيں.
شيخ زكريا انصارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كسى نے ايك شخص كو درہم دے كر كہا كہ اس درہم سے اپنے ليے پگڑى خريد لو يا پھر حمام ميں جاؤ يا كوئى اور متعين كام كہا تو جس غرض كے ليے يہ درہم ديا گيا ہے اس كا خيال كيا جائيگا، اگر اس نے پگڑى كے ساتھ سر ڈھانكنا مقصود ليا يا پھر حمام ميں جا كر جسم كى صفائى وغيرہ كرنا مقصود ليا ہو كہ اس نے اس شخص كا سر ننگا ديكھا يا پھر جسم گندا تھا تو اسے درہم ديا، اگر وہ ايسا ارادہ نہ كرتا تو پھر اسے وہ عام الفاظ ديتا اور اس ميں وسعت ركھتا اور كسى كام كو متعين نہ كرتا، تو وہ جس طرح چاہے اس درہم كو صرف كر سكتا ہے " انتہى
ديكھيں: اسنى المطالب شرح روض الطالب ( 2 / 479 – 480 ).
شيخ سليمان بن عمر الجمل رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كسى نے ايك شخص كو روزہ افطار كرنے كے ليے كھجور دى تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس ميں دينے والے نے تعيين كى ہے، اس ليے اسے افطارى كے علاوہ كسى اور غرض كے ليے يہ كھجور استعمال كرنى جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: حاشيۃ الجمل على شرح المنھج ( 2 / 328 ).
واللہ اعلم .
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ