روزہ غروب شمس تك ہے نا كہ جيسے شيعہ حضرات كہتے ہيں

سوال
ميرا سوال روزے اور افطارى كے بارہ ميں ہے، ميرى پڑوسيوں سے بات ہوئى جو كہ شيعہ مسلك سے تعلق ركھتے ہيں انہوں نے مجھے آيت كريمہ پڑھ كر سنائى جس ميں اللہ نے فجر سے ليكر رات تك روزہ پورا كرنے كا حكم ديا ہے، نہ كہ غروب شمس تك، ان پڑوسيوں كا يہى كہنا تھا، برائے مہربانى مجھے اس كے بارہ ميں معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے
جواب کا متن
الحمد للہ.
سب مسلمانوں كا اجماع اور اتفاق ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور سے ليكر آج تك يہى ہے كہ روزہ فجر صادق طلوع ہونے سے شروع ہو كر افق ميں پورى سورج كى ٹكيا غروب ہونے تك رہتا ہے، اس پر كتاب و سنت اور مسلمانوں كا اجماع قطعى دلالت كرتے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
پھر تم رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).
اور لغت عرب ميں رات غروب شمس سے شروع ہوتى ہے.
قاموس المحيط ميں درج ہے:
" الليل: سورغ غروب ہونے سے ليكر فجر صادق طلوع ہونے يا سورج طلوع ہونے كو رات كہا جاتا ہے " انتہى
ديكھيں: القاموس المحيط ( 1364 ).
اور لسان العرب ميں درج ہے:
" الليل: دن كے بعد شروع ہوتى ہے اور اس كى ابتدا غروب شمس سے ہوگى " انتہى
ديكھيں: لسان العرب ( 11 / 607 ).
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں لكھتے ہيں:
قولہ تعالى:
پھر تم روزہ رات تك پورا كرو .
يہ اس كا تقاضا كرتى ہے كہ شرعى حكم كے مطابق غروب شمس كے وقت روزہ افطار كيا جائے. انتہى
ديكھيں: تفسير القرآن العظيم ( 1 / 517 ).
بلكہ يہاں بعض مفسرين نے يہ تنبيہ كي ہے كہ اس آيت ميں حرف جر " الى " كا استعمال بھى تعجيل يعنى جلدى كرنے كا فائدہ ديتا ہے، كيونكہ يہ حرف جر انتہا غايت پر دلالت كرتا ہے.
علامہ طاہر ابن عاشور رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ( الى الليل ) يہ روزے كى انتہاء و غايت ہے جس ميں روزہ جلد افطار كرنے كے ليے حرف الى اختيار كيا گيا ہے كہ غروب شمس ہوتے ہى روزہ افطار كر ليا جائے؛ كيونكہ اس كے ساتھ غايت ميں اضافہ نہيں ہو سكتا، بخلاف حرف " حتى " كے تو يہاں مراد ہے كہ رات كے ساتھ ملنے سے روزہ پورا ہو جاتا ہے " انتہى
ديكھيں: التحرير التنوير ( 2 / 181 ).
اس سب كى تائيد صحيحين كى درج ذيل حديث سے ہوتى ہے:
امير المومنين عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب اس طرف سے رات آ جائے اور اس طرف سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار كا روزہ افطار ہو جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1954 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1100 ).
اس حديث ميں مشرق كى جانب سے رات آنے اور افق ميں سورج غائب ہو جانے كو ملا كر ذكر كيا گيا ہے، اور يہ مشاہدہ شدہ بات ہے، كيونكہ افق كے پيچھے سورج كى ٹكيا غائب ہوتے ہى مشرق كى جانب اندھيرا شروع ہو جاتا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: " جب اس طرف سے رات آ جائے " يعنى مشرق كى جانب سے رات آ جائے، اس سے مراد اندھيرے كا حسى طور پر وجود ہے.
اس حديث ميں تين امور بيان ہوئے ہيں؛ اگرچہ اصل ميں يہ ايك دوسرے كو لازم ہيں، ليكن ہو سكتا ہے بعض اوقات ظاہر ميں ايك دوسرے سے لازم نہيں ہوں.
ہو سكتا ہے كہ مشرق كى جانب سے رات آنے كا خيال ہو ليكن حقيقت ميں ايسا نہ ہو، بلكہ ہو سكتا ہے كہ كوئى چيز سورج كى ٹكيا كو ڈھانپ چكى ہو جس كى بنا پر اندھيرا نظر آئے، اور اسى طرح دن كے جانے ميں بھى ہو سكتا ہے.
اس ليے حديث ميں " غروب شمس " كى قيد لگائى گئى ہے اور يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ رات آنے اور دن جانے كى علامت ہے اور اس سے يقينى طور پر ايسا ہوگا، اور يہ دونوں غروب شمس كے ساتھ ہونگى كسى اور سبب كے باعث نہيں " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 196 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء كرام كا كہنا ہے كہ: ان تين امور ميں سے ہر ايك باقى دو كو لازم ہيں اور اپنے ضمن ميں ليے ہوئے ہے، ان كو جمع اس ليے كيا گيا ہے كيونكہ ہو سكتا ہے كوئى شخص كسى وادى وغيرہ ميں ہو جہاں وہ سورج غروب ہونے كا مشاہدہ نہ كر سكے اس ليے وہ روشنى ختم ہونے اور اندھيرا چھا جانے پر اعتماد كريگا " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 7 / 209 ).
امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ابى بن ابى اوفى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" ايك سفر ميں ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھےاور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم روزے سے تھے جب سورج غروب ہوا تو ايك شخص كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
يا فلان اٹھو ہمارے ليے ستو تيار كرو ( يعنى پانى ميں ستو ملاؤ تا كہ ہم نوش كر سكيں ) تو وہ شخص عرض كرنے لگا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم شام تو ہونے ديں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اتر كر ہمارے ليے ستو تيار كرو.
تو وہ شخص عرض كرنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم : شام تو ہونے ديں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اتر كر ہمارے ليے ستو تيار كرو.
وہ شخص عرض كرنے لگا: ابھى تو دن ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اتر كر ہمارے ليے ستو تيار كرو.
تو اس شخص نے اتر كر ان كے ليے ستو تيار كيے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ستو نوش فرمائے، اور فرمايا:
جب تم ديكھو كہ اس جانب سے رات آ گئى ہے تو روزے دار كا روزہ افطار ہو گيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1955 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1101 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں روزہ جلد افطار كرنے كا استحباب پايا جاتا ہے، اور يہ دليل پائى جاتى ہے كہ رات كا كوئى حصہ بھى روزہ ركھنا صحيح نہيں، بلكہ جيسے ہى سورج غروب ہونے كا يقين ہو جائے تو افطارى حلال ہو جاتى ہے " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 197 ).
پھر مسلمانوں كا اجماع ہے كہ جيسے ہى مؤذن غروب آفتاب كے بعد مغرب كى اذان دے تو افطارى كرنا اور كھانا جائز ہے، اور جو كوئى بھى اس كے مخالف عمل كرے اور دين ميں بدعت كى ايجاد كرے جس كى اس كے پاس كوئى دليل بھى نہ ہو اور نہ ہى علم ہو تو اس نے مومنوں كى راہ كى بجائے كسى اور راہ كى پيروى كى.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" غروب شمس كے فورا بعد نماز مغرب جلد ادا كى جائے، اس پر اتفاق ہے، شيعہ كى جانب سے اس سلسلہ ميں كچھ بيان كيا جاتا ہے جو قابل التفات نہيں، اور نہ ہى اس كى كوئى دليل ہے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 5 / 136 ).
بلكہ اس مسئلہ كے متعلق تو بہت سارى شيعہ كتب ميں وہى بيان ہوا جس پر سب مسلمانوں كا اجماع و اتفاق ہے.
بعض شيعہ نے جعفر صادق رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ:
" جب سورج غروب ہو جائے تو روزہ افطار كرنا حلال ہے اور نماز ادا كرنا واجب ہے " انتہى
ديكھيں: من لا يحضرہ الفقيہ ( 1 / 142 ) وسائل الشيعۃ ( 7 / 90 ).
البروجردى نے صاحب الدعائم سے اس كا يہ قول نقل كيا ہے:
" ہم اہل بيت سے روايت بالاجماع روايت كر چكے ہيں جو ہميں ان سے رواۃ كرنے والے راويوں كى جانب سے علم ہےكہ رات جس سے روزہ افطار كرنا حلال ہو جاتا ہے وہ بغير كسى حائل كے افق ميں سورج غائب ہونا ہے، يعنى كوئى پہاڑ يا ديوار وغيرہ حائل نہ ہو جائے، اس ليے جب سورج كى ٹكيا افق ميں غائب ہو جائے تو رات شروع ہو جاتى ہے اور افطارى حلال ہو جاتى ہے " انتہى
ديكھيں: جامع احاديث الشيعۃ ( 9 / 165 ).
حاصل يہ ہوا كہ:
اس وقت جو شيعہ حضرات نماز مغرب ميں تاخير كرتے ہيں اور افطارى كو غروب شمس سے كچھ دير تك تاخير كرتے ہيں، يہ قرآن و سنت نبويہ صحيحہ كے خلاف ہے، اور اسى طرح مسلمانوں كے اجماع كے بھى خلاف ہے.
پھر يہ چيز تو انہوں نے جو كچھ اپنے آئمہ كرام سے نقل كيا ہے اس كے بھى مخالف ہے!
واللہ اعلم .

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ