طلوع فجر کے بعد لاعلمی میں کھانا کھالیا

یکم رمضان المبارک کوفجر کے وقت میری بیوی نے مجھے بیدار کیا اورکہنے لگے کیا پانی پینا ہے ؟ میں نے جب اس سے گلاس لیا توپوچھا کیا اذان ہوچکی ہے ؟ تووہ کہنے لگي ابھی نہیں ۔لیکن پانی پینے کے پندرہ یا بیس منٹ بعد اقامت ہوگئي ، اس طرح میں نے اذان کے پانچ یا دس منٹ بعد پانی پیا تھا لھذا کیا مجھ پر کچھ ہے ؟

الحمد للہ
اگرکوئي شخص رات باقی سمجھتے ہوئے یا پھرطلوع فجر نہ ہونے کے گمان میں کھا پی لے تو ایسے شخص کے بارہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے ، اوراسی طرح اس شخص کے بارہ میں بھی اختلاف کرتے ہیں جس نے غروب شمس سے قبل ہی غروب شمس کے گمان میں کھا لیا ۔

اس مسئلہ میں بہت سے علماء کرام کا مسلک تویہ ہے کہ اس کا روزہ فاسد ہوگا ، اوراس کے بدلے میں اسے روزہ رکھنا پڑے گا ۔

لیکن کچھ علماء کرام کہتے ہيں کہ : اس کا روزہ صحیح ہے اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہیے ، اوراس پراس روزہ کی قضاء نہيں ۔

اس قول کے قائلین میں تابعین میں سے امام مجاھد ، اورحسن ، شامل اورامام احمد کی ایک روایت بھی اوراسے شافعیہ میں سے المزنی نے اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ جمیعا نے اختیار کیا ہے ، اورشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے اسے راجح کہا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

جولوگ سب میں روزے کو صحیح قرار دیتے ہیں ( یعنی جب کوئي دن کے شروع میں خطاء یا غلطی کرلے اوربھول جائے ) وہ کہتے ہیں کہ ہماری دلیل زيادہ قوی ہے ، اورکتاب وسنت کی اس پر دلالت بھی ظاہر ہے ۔

کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائيں اورغلطی کرلیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا } ۔

تویہاں پر خطاء اورنسیان میں جمع کیا ہے ، اوراس لیے کہ جس نے حج اورنماز کے محظورات کا غلطی سےارتکاب کیا وہ بھول کرکرنے والے کی طرح ہی ہے ۔

اورصحیح بخاری میں یہ ثابت ہے کہ :

کہ صحابہ کرام نے عھد نبوی میں روزہ افطار کرلیا اورسورج تھا ، اس حدیث میں اس کا ذکر نہيں کہ انہيں قضاء کا حکم دیا گيا ہو ۔

لیکن ھشام بن عروۃ کہتے ہیں کہ : قضاء ضروری ہے ، اوران کےوالد اس سے زيادہ علم رکھتے ہيں وہ یہ کہتے تھے : ان پر کوئي قضاء نہيں ۔

اورصحیحین میں ہے کہ :

کچھ صحابہ کرام اس وقت تک کھاتے تھے جب تک ان میں کسی ایک کو سفید دھاگہ اور سیاہ دھاگہ میں تمیز نہ ہوجاتی ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کو یہ فرمایا تھا : تیرا سرہانہ تو بہت وسیع وعریض ہے ، بلکہ اس سےتو رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی مراد ہے ۔

اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ انہيں قضاء کاحکم دیا ہو ، یہ لوگ حکم سے لاعلم اورجاہل تھے تواس لیے غلطی کی ۔

عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سےثابت ہے کہ :

انہوں نے روزہ افطار کرلیا پھر دن ظاہر ہوگیا تو وہ فرمانے لگے : ہم قضا نہيں کرینگے کیونکہ ہم اثم اورگناہ کی طرف مائل نہيں ۔

اور ان سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم اس کی قضا کرینگے ۔ لیکن پہلی روایت کی سند زيادہ قوی اورثابت ہے ۔

اور ان سے یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا : یہ معاملہ آسان ہے ۔

اس کی کچھ تو تاویل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا قضاء کا معاملہ آسان ہے ،لیکن الفاظ اس پردلالت نہيں کرتے ۔

مجموعی طور پر اثرو نظر کے اعتبارسے یہ قول زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے اورکتاب وسنت اورقیاس کی دلالت سے زيادہ مشابہ ہے ۔

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 20 / 572 - 573 ) اورشرح الممتع ( 6 / 411)

تواس طرح روزہ صحیح ہونے اوراس پر قضاء نہ ہونے کے قول کے دلائل کی قوت ظاہرہوتی ہے ، لیکن اس کے باوجود اگر مسلمان احتیاط کرے اوراس کی قضا میں روزہ رکھے تو یہ بہتر اوراحسن ہے ۔

واللہ اعلم .

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ