دین پرعمل نہ کرنے والے کا انجام

دین پر عمل نہ کرنے والےکا انجام کیا ہے ؟

الحمد للہ
جس طرح آپ کے لیے یہ واضح ہے کہ اسلام ہی اللہ تعالی کا دین ہے اوروہی دین حق ہے ، اوریہ وہی دین ہے جوسب انبیاء و رسول صلی اللہ علیہم السلام لے کر آۓ جوبھی اس دین پر ایمان لایا اسے دنیا و آخرت میں اجرعظیم سے نوازا جاۓ گا ، اورجوبھی اس دین کے ساتھ کفرکاارتکاب کرے گا اسے سخت قسم کے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا ۔

جس طرح کہ اللہ تعالی ہی خالق ومالک اوراس جہاں میں ہرچیزکا متصرف ہے ، اور اے انسان توبھی اس کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہی ہے تیرے لیے اللہ تعالی نے ہر چيز مسخر کردی اور تیرے لیے اپنی شریعت بنائ اورتجھے اس شریعت کی پیروی واتباع کا حکم دیا ۔

تواگر تونے اللہ تعالی کے احکامات کومانا اوراس کی اطاعت کی اورجس سے منع کیا گيا ہے اس سے رک گیا تواللہ تعالی نے جس چيز کاآخرت میں تیرے ساتھ وعدہ کیا ہے اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اورتجھے جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں حاصل ہونگی ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ دنیامیں بھی مختلف نمعتوں کی سعادت حاصل ہوگي مخلوق میں سب سے زیادہ عقل مند اورپاکیزہ نفس کے مالک انبیاءو رسل اورصالحین اورمقرب فرشتے ہیں ۔

اوراگرآپ اپنے رب کے ساتھ کفر اوراس کی نافرمانی کريں گے تودنیاو آخرت کی ناکامی ونقصان اٹھائيں گے اوردنیا و آخر ت میں اللہ تعالی کی ناراضگی اورعذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اورمخلوق میں سب سے گندی ترین مخلوق کے مشابہ اورسب سے زيادہ کم عقل گرے پڑے نفس کے مالک اورشیطانوں اورظالموں فسادیوں اورطاغوتوں میں سے ہوں گے ہم نے یہ سب کچھ اجمالی طورپربیان کیا ہے ۔

اب ہم تفصیل کےساتھ کفرکا انجام ذکر کرتے ہيں :

1 - کفرکا انجام خوف کا حصول اورعدم امن ہے :

اللہ تعالی نے ایمان والوں اوررسولوں کی اتباع کرنے والوں کے ساتھ اس دنیاوی اوراخروی زندگی میں مکمل امن کا وعدہ کیا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ جولوگ ایمان لاۓ اوراپنے ایمان کے ساتھ ظلم کونہیں ملایا ان کے لیے ہی امن وسلامتی ہے اوروہ ہی ھدایت یافتہ ہيں } الانعام ( 82 ) ۔

اوراللہ تعالی ہی امن وسلامتی دینے والا اورحفاظت کرنے والا ہے اوراس جہان میں پائ جانے والی ہرچيز کا مالک بھی وہی ہے ، اورجب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کو اس کے ایمان کی بنا پر پسند فرما لیتا ہے تو اللہ تعالی اسے امن وسلامتی اوراطمنان وسکون نصیب کرتا ہے ۔

اورجب کوئ آدمی اللہ تعالی کے ساتھ کفرکرتا ہے تو اللہ تعالی اس سے اسے کے امن وسلامتی اور اطمنان وسکون کوچھین لیتا ہے ، توآپ اسے ہروقت آخرت میں اپنے انجام سے خوفزدہ ہی دیکھیں گے ، اوروہ اپنی جان پر آفات و امراض سے خوفزدہ رہتا ہے ۔

اوراسی طرح وہ دنیا میں اپنے مستقبل سے بھی خوفزدہ رہنے کی بنا پر اپنی جان ومال کی انشورنش کرواتا پھرتا ہے ، اس لیے کہ اسے امن وسلامتی حاصل ہی نہیں ہوتی اوراس کا اللہ تعالی پربھی توکل و بھروسہ نہیں ہے ۔

2 - زندگی میں تنگی :

اللہ تعالی نے انسان کوپیدا فرمایا اوراس کے لیے اس جہان میں پائي جانے والی ہرچيز کو مسخر کردیا ، اورہر مخلوق کے لیے اس کی روزی اورعمر بھی تقسیم کردی ، آپ دیکھتے ہیں کہ پرندہ اپنے گھونسلے سےرزق کی تلاش میں نکلتا ہے اورایک سے دوسری ٹہنی پر منتقل ہوتا رہتا اور سریلی آواز میں چہچاتا ہے ۔

اورانسان میں ان مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے جن کی اللہ تعالی نے روزي اور عمرتقسیم کررکھی ہے ، تواگر یہ انسان اپنے رب پرایمان لاۓ اوراس کی شریعت پراستقامت اختیار کرے تواللہ تعالی اسے سعادت و استقرار نصیب کرتا ہے اوراس کے معاملات آسان کردیتا ہے ،اگرچہ اس کے پاس زندگی گزارنے کے لیے وافر مقدار میں اشیاء نہ بھی ہوں ۔

اوراگر وہ اپنے رب کےساتھ کفرکا ارتکاب اور اس کے عبادت کرنے سے تکبر کرتا ہے تواللہ تعالی اس کی زندگی تنگ اوراجیرن بنا دیتا ہے اوراس پر ہر قسم کے غم وپریشانیاں جمع کردیتا اگرچہ اس کے پاس ہر قسم کی راحت و آسائش کے وسائل اورسازوسامان کی انواع واقسام ہی کیوں نہ ہوں ۔

کیا آپ دیکتھے نہيں کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں جہاں کے افراد کوہر قسم کے آسودگی کے وسائل مہیا کیے گۓ ہیں ان میں خود کشی کرنے والوں کی کثرت پائی جاتی ہے ؟

کیا آپ دیکھتے نہیں کہ صرف زندگی کا نفع حاصل کرنے کے لیے سازوسامان اورسفروں کی کئي قسموں میں اسراف و فضول خرچی کی جاتی ہے ؟

اوراس اسراف و فضول خرچی کا سبب یہ ہے کہ دل ایمان سے خالی اورتنگی کا احساس وشعور ، اوران پریشانیوں اورقلق کوختم کرنے کے لیے مختلف قسم کے جدید وسائل استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے سچ ہی فرمایا ہے :

{ اورہاں جوبھی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی ، اورہم اسے قیامت کے روز اندھا کرکے اٹھائيں گے } طہ ( 124 ) ۔

3 - وہ اپنے نفس اوراپنے اردگرد کے جہان سے مقابلہ میں زندگی گزارتا ہے :

یہ اس لیے ہے کہ اس کا نفس توفطرت توحید پر پیدا کیا گيا ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

{ اللہ تعالی کی وہ فطرت جس پر لوگوں کو پیدا کیا ہے } الروم ( 30 ) ۔

اوراس کا جسم تواپنے خالق ومالک کے سامنے جھک گیااوراپنے خالق کے نظام پر چلنے لگا توکافر نے اس فطرت کو توڑ کررکھ دیا اورایمان لانے سے انکارکیا ۔

اوراپنے رب کے احکامات و اوامر کی مخالفت کرتے ہوۓ اختیاری امور میں زندگی گزارتا ہے ، تواگر اس کا جسم اللہ تعالی کا مطیع و فرمانبردارہے تواس کا اختیار اس کے مخالف ہے ۔

اوروہ اپنے ارد گرد کے ماحول کے ساتھ وہ مقابلہ میں رہتے ہے ، یہ اس لیے کہ اس لیے کہ اس جہان میں بڑی سے بڑي چيز سے چھوٹی سے چھوٹی چيز اللہ تعالی کی مقرر کرتا تقدیر پر چلتی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوااور وہ دھواں سا تھا تو اللہ تعالی نے اسے اورزمین کو فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہيں } فصلت ( 11 ) ۔

بلکہ اس جہان میں جواپنے آپ کواللہ تعالی کے سپردکردیتا ہے تووہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے اورجو اس کی مخالفت کرے اسے ناپسند کیا جاتا ہے ، اورکافر ہی اس مخلوق میں حد سے بڑھا ہوا ہے کہ اس نے اپنے آپ کواللہ تعالی کی مخالفت کے لیے تیار کررکھا ہے اوراس کی مخالف پردوسروں کی مدد کرتا ہے ، تواسی لیے آسمان وزمین اورساری مخوقات کاحق ہے کہ ایسے کافر سے بغض رکھے اوراس کےکفرو الحاد سے بھی نفرت و بغض رکھے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اروان کا قول تویہ ہے کہ اللہ ورحمن نے بھی اولاد اختیار کی ہے ، یقینا تم بہت بری اوربھاری چیز لاۓ ہو ، قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائيں اورزمین شق ہوجاۓ اورپہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائيں ، کہ وہ رحمن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ، اوریہ رحمن کی شان کے لائق نہيں کہ وہ اولاد رکھے ، آسمان وزمین میں جوبھی ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالی کے غلام بن کر ہی آنے والے ہيں } مریم ( 88 - 93 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے فرعون اوراس کے لاؤ لشکر کے بارہ میں فرمایا :

{ ان پر نہ تو آسمان وزمین روۓ اور نہ انہیں مہلت ہی ملی } الدخان ( 29 ) ۔

4 - وہ جاھلیت کی زندگی بسر کرتا ہے :

اس لیے کفر جہالت بلکہ ایک عظیم جہالت ہے جس سے بڑھ کرکوئ جہالت ہوہی نہیں سکتی ، کیونکہ کافراپنے رب سےجاہل ہے ، وہ یہ دیکھتا اورمشاھدہ کرتا ہے کہ یہ سارا جہان اس کے رب نے پیدا کیا اوربالکل بدیع طور پربنایا ہے ۔

اور اپنے نفس کی عظیم الخلقت اورصنعت جلیل بھی دیکھتا ہے اوراس کے باوجود وہ اس جہان کے پیدا کرنے والے اوراس کے نفس وجان کو ترکیب دینےوالے سے غافل ہے توکیا یہ ایک عظیم جہالت نہیں ؟ ؟

5 - اوراپنے اوپر اوراپنے ارد گرد رہنے والوں پر بھی ظلم کرتے ہوۓ زندگی بسرکرتا ہے :

اس لیے کہ اس نے اپنے آپ اس چيز کے لیے مسخر ومطیع کردیا جس کے لیے وہ پیدا ہی نہيں کیا گيا ، اوراپنے رب کی عبادت کو چھوڑ کرکسی اورکی عبادت کرتا ہے ۔

اورظلم یہ ہوتا کہ کسی چيز کواس کی جگہ کے علاوہ غیر مناسب جگہ پر رکھ دیا جاۓ ، توپھر اس سے بڑھ کراورکونسا ظلم ہوگا کہ اللہ تعالی کی عبادت کے علاوہ کسی اورکی عبادت کی جاۓ جو اس کا مستحق ہی نہیں ۔

لقمان حکیم نےشرک کی قباحت بیان کرتے ہوۓ اپنے بیٹے سے کہا تھاجس کا ذکر اللہ تعالی نےاپنے اس فرمان میں کیا ہے :

{ اورجب لقمان نے وعظ کرتےہوۓ اپنے بیٹے سے فرمایا کہ اے میرے پیارے بیٹے ! اللہ تعالی کے ساتھ شرک نہ کرنا یقینا شرک ایک بڑا بھاری ظلم ہے } لقمان ( 13 ) ۔

اوراپنے ارد گرد انسانوں اورمخلوقات پر بھی ظلم کرتا ہے کہ اس لیے کہ اسے حقدار کے حق کا علم ہی نہیں ، اورانسانوں اورحیوانوں میں سے جس پر بھی اس نے ظلم کیا ہوگا وہ روزقیامت اس کے سامنے آ کراپنے رب سے قصاص کا مطالبہ کریں گے ۔

6 - اس نے دنیا میں اپنے آپ کواللہ تعالی کی ناراضگی اورغصہ کا باعث بنایا :

اوروہ دنیا میں اللہ تعالی کے غیض وغضب کا شکار رہتا ہے جس کی وجہ سے اس پر مصائب وتکالیف اورحادثات نازل ہوتے اورجلد سزا دی جاتی ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ بدترین سازشیں کرنے والے کیا اس بات سے بے خوف ہو گۓ ہیں کہ اللہ تعالی انہيں زمین مین دھنسا دے یا ان کے پاس ایسی جگہ سے عذاب آجاۓ جس کا انہیں وہم وگمان بھی نہ ہو ۔

یا انہیں چلتے پھرتے پکڑلے یہ کسی صورت میں اللہ تعالی کوعاجز نہیں سکتے ، یا انہیں ڈرا دھمکا کر پکڑ لے پس یقینا تمہارا پروردگار اعلی شفقت اورانتہائ رحم والا ہے } النحل ( 45 - 47 ) ۔

اوراللہ تبارک وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح بھی ہے :

{ کفار کوتوان کے کفر کے بدلے میں ہمیشہ کوئ نہ کوئ سخت سزا پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی تاوقتیکہ اللہ تعالی کا وعدہ آ پہنچے یقینا اللہ تعالی وعدہ خلافی نہیں فرماتے } الرعد ( 31 ) ۔

اورایک درسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

{ اورکیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے خوف و فکر ہوگۓ ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آ پڑے اوروہ کھیل کود میں مشغول ہوں } الاعراف ( 98 ) ۔

جوبھی اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہواس کی یہی حالت ہوتی ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی نےپہلی امتوں کی خبر دیتے ہوۓ فرمایا :

{ پھرتو ہرایک کوہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا ، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائ اوران میں سے بعض کوزوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اوران میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اوران میں سے بعض کوہم نے ڈبو دیا اللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ وہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے } العنکبوت ( 40 ) ۔

اورجس طرح آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں پرتکالیف ومصائب اوراللہ تعالی کی سزائيں اورعقاب نازل ہوتا دیکھتے ہیں ۔

7 - اسے خائب و خاسر لکھ دیا جاتا ہے :

وہ اپنےظلم کے بنا پر دلوں اورروحوں کے بہت ہی عظیم نفع جو اللہ تعالی سے مناجات کی بنا پراللہ تعالی کی معرفت اورانسانوں کی محبت اوراللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ امن وسکون سے محروم ہوجاتا ہے ۔

اوراسے دنیا کا خسارہ حاصل ہوتا ہے اس لیے کہ وہ دنیا میں حیرانی وپریشانی کی زندگی بسر کرتا ہے اورپھر اپنے نفس کا بھی خسارہ اٹھاتا ہے جس کی بنا پروہ مال و دولت جمع کرتا تھا کیونکہ اس نے اپنے نفس کواللہ تعالی کی اطاعت میں مسخر نہں کیا حالانکہ اسے پیدا ہی اسی لیے کیا گيا تھا ۔

اورنہ ہی اسے دنیا کی سعادت حاصل ہوسکی کیونکہ اس کی زندگی بھی شقی بدبخت کی طرح گزری اور اسے موت بھی بدبختی کی آئی اورمیدان محشرمیں بھی اشقیاء و بدبختوں کے ساتھ ہی اٹھایا جاۓ گا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ اورجس شخص کا پلڑا ہلکا ہوگا تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کیا اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے } الاعراف ( 9 ) ۔

اوراپنے اہل عیال کا بھی خسارہ کیا اس لیے کہ وہ ان کے ساتھ اللہ تعالی کے کفر پرہی زندگی بسر کرتا رہا اس لیے وہ سب بھی اس کی طرح شقی و بدبخت اورتنگی میں برابر ہيں اوران سب کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا :

{ اورایمان دار صاف کہيں گے کہ حقیقی نقصان و خسارہ پانے والے وہ ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کواوراپنے گھر والوں کونقصان میں ڈال دیا یا د رکھو کہ یقینا ظالم لوگ دائمی عذاب میں ہيں } الشوری ( 45 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی نے اس طرح فرمایا :

{ آپ کہہ دیجۓ ! کہ حقیقی نقصان اٹھانے والے تو وہ ہیں جو اپنے آپ کواوراپنے گھر والوں کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے ، یاد رکھو یہ واضح اورکھلم کھلا نقصان یہی ہے } الزمر ( 15 ) ۔

اورروزقیامت ان سب کوجہنم کی جانب دھکیلاجاۓ گا اوروہ بہت کم قرار والی جگہ ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی نے اس کا ذکر کچھ یوں فرمایا ہے :

{ ظالموں اوران کے ہمراہیوں کو اورجن جن کی وہ اللہ تعالی کے علاوہ عبادت کرتے تھے ان سب کوجمع کرکے انہیں دوزخ کی راہ دکھا دو ، اورانہیں ٹھرا لو ، اس لیے کہ ان سے ضرور پوچھ گچھ ہونے والی ہے } الصافات (22- 23 )

بلاشبہ وہ ساری زندگی اپنے رب کے ساتھ کفراوراللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہوا بسر کرتا ہے ۔

حالانکہ اللہ تعالی نے اسے عدم سے وجود دیا اوراس پر اپنی ساری نعمتیں مکمل کیں توپھروہ کس طرح کسی اورکی عبادت کرتا پھرتا ہے اوراللہ تعالی کوچھوڑ کر کسی اورسے دوستی ومحبت کرتا ہے اوراس کے علاوہ کسی اورکا شکریہ ادا کرتا پھرتا ہے ۔۔۔۔

اس سے بڑھ کرانکاراورکفراورکیا ہوگا ؟ اوراس سے بھی زيادہ شنیع اورقبیح ناپسندیدگی اورکیا ہوگي ؟

9 - وہ حقیقی زندگی سے محروم رہتا ہے :

اس لیے کہ زندگی کا حقدار تو وہی ہے جو اپنے رپ پرایمان لاۓ اوراپنے پیدا ہونے کی غرض وغایت کوپہچانے ، اوراپنے انجام کاخیال رکھے ، اوراپنے دوبارہ اٹھنے کا اسے یقین ہو ، اورہر حقدار کے حقوق کوپہچانتے ہوۓ ادا کرے ، کسی کا حق غصب نہ کرے ۔

اورمخلوق میں سے کسی کوبھی اذیت وتکلیف نہ دے تووہ ایک سعادت مندکی زندگی بسرکرتا ہے اوردنیا وآخرت میں اس نے ایک اچھی اوربہتر زندگی حاصل کرلی ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ جوشخص بھی اعمال صالحہ کرے چاہے وہ مرد ہو یا عورت لیکن ہو مومن تو ہم اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا فرمائيں گے اوران اعمال صالحہ کا بدلہ بھی بہتر اوراچھا دیں گے } النحل ( 97 ) ۔

اورایک اورمقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

{ اللہ تعالی تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اورتمہیں ان جنتوں میں پہنچاۓ گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اورصاف ستھرے گھروں میں جوجنت عدن میں ہوں گے یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے } الصف ( 12 ) ۔

لیکن وہ شخص جواس دنیا میں جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے اوراپنے رب کوبھی نہیں پہچانتا اورنہ ہی اپنی زندگی کا مقصد اورنہ ہی اسے انجام کی کچھ خبر ہے ؟

اس کا تومقصدصرف کھانا پینا اورسونا ہو ۔۔۔۔ توپھر ان جانوروں اوراس کےدرمیان کیا فرق ہوا بلکہ وہ تو ان جانوروں سے بھی گيا گزرا اور گرا ہوا ہے ۔

اللہ جل شانہ نے اس کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہوۓ فرمایا :

{ اورہم نے جہنم کے لیے بہت سارے جن وانسان پیدا کیۓ ہیں جن کے دل تو ہیں لیکن وہ سمجھتے نہيں ، اوران کی آنکھیں ہيں لیکن وہ ان سے حق کودیکھتے ہی نہیں ، اوران کے کان ہیں لیکن وہ ان سے حق سنتے ہی نہیں

یہ لوگ توچوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ تو ان سے بھی زیادہ گمراہ ہيں بلکہ یہی لوگ غافل ہیں } الاعراف ( 179 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

{ کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ،وہ توچوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوۓ ہیں } الفرقان ( 44 ) ۔

10 - وہ دائمی عذاب میں ہوگا :

اس لیے کہ کافر ایک قسم کے عذاب سے دوسری قسم کے عذاب میں منتقل ہوتا رہے گا ، اورجب دنیا سے نکل کرآخرت میں جاۓ گا تواس میں مصائب و آلام جھیلتا ہوا جاۓ گا ۔

اوراس کے سب سے پہلے مرحلے میں ہی موت کے فرشتوں سے بھی پہلے عذاب کے فرشتے نازل ہوکر اسے مستحق شدہ عذاب چکھانا شروع کردیں گے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ کاش کہ تودیکھتا کہ جب فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہيں ان کے منہ پر اورسرینوں پر مار مارتے ہیں اورکہتے ہیں تم جلنے کا عذا ب چکھو } الانفال ( 50 ) ۔

اورجب اس کی روح نکل جاتی اوراسے قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو بہت شدید قسم کے عذاب کا سامنا کرتا ہے ۔

اللہ تعالی نے آل فرعون کے بارہ میں خبر دیتے ہوۓ فرمایا :

{ وہ ہر صبح اورشام آگ کے سامنے لاۓ جاتے ہیں اورجس دن قیامت قائم ہوگی ( فرمایا جاۓ گا ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو } غافر ( 46 )

اورپھر جب قیامت کا دن ہوگا اورساری مخلوق اٹھا کر اکٹھی کی جاۓ گی ، اوراعمال پیش کیۓ جائيں گے ، اورکافر جب یہ دیکھے گا کہ اللہ تعالی نے اس کے سارے کے سارے اعمال اس کتاب میں جمع کردیے ہيں ۔

اللہ تعالی نے اس کتاب کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا ہے :

{ اورنامہ اعمال سامنے رکھ دیۓ جائيں گے توآپ دیکھیں گے کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوفزدہ ہورہیں ہوں گے اوروہ یہ کہیں گے ہاۓ افسوس ہماری خرابی یہ کتاب کیسی ہے جس نے نہ توکوئ چھوٹا اورنہ ہی بڑا گناہ چھوڑا ہے اورجوکچھ انہوں نے کیا ہوگا وہ اسے اس کتاب میں موجود پائيں گے اورآپ کا رب کسی پربھی ظلم و ستم نہیں کرے گا } الکہف ( 49 ) ۔

اورپھر وہاں کافرکی تمنا اورخواہش ہوگی کہ کاش وہ مٹی ہوچکا ہوتا ، اللہ تعالی نے اس کی اس خواہش کواس طرح بیان کیا ہے :

{ جس دن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائ کودیکھ لے گا ، اورکافر یہ کہے گا کہ کاش ! میں مٹی ہوجاتا } النباء ( 40 ) ۔

اوراس دن سختی اورھولناکی کی بنا پر انسان یہ چاہے گا کہ اگروہ زمین کی ساری اشياء کا مالک بن جاۓ اوراسے اس دن کے عذاب میں فدیہ دے کر عذاب سے بچ سکے ۔

اللہ تعالی نے اس کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :

{ اگر ظلم کرنے والوں کے پاس وہ سب کچھ ہو جوروۓ زمین پر ہے اوراس کے ساتھ اتنا اوربھی ہو توبدترین سزا کے بدلہ میں یہ سب کچھ دے دیں ، اوران کے سامنے اللہ تعالی کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا گمان بھی انہیں نہ تھا } الزمر ( 47 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نےکچھ اس طرح فرمایا :

{ گنہگار مجرم لوگ اس کے عذاب کےبدلے فدیہ میں اپنے بیٹوں ، اوراپنی بیوی اوراپنے بھائ اوراپنے کنبے قبیلے کوجواسے پناہ دیتے تھے اوررو‌ۓ زمین پر سب لوگوں دینا چاہے گا تا کہ اسے اس عذاب سے نجات مل جاۓ } المعارج ( 11 - 14 ) ۔

اوراس لیے کہ دارآخرت دار جزا ہے اورتمناؤں اورخواہشات کا مقام نہيں لھذا اس دن انسان اپنے کیے کی سزا حاصل کرکے رہے گا اگراس نے اچھے کام کیے تواچھا بدلہ ملے گا اوراگربرے کام کیے تواس کا بدلہ بھی سزا کی صورت میں برا ہی ہوگا ۔

اورآخرت میں کافر کے لیے سب سے برا عذاب آگ کا ہوگا ، اوراللہ تعالی نے آگ میں جانے والوں کے لیے کئ قسم کا عذاب تیار کررکھا ہے تاکہ وہ اپنے کیے کی سزا پا سکیں ۔

اللہ تعالی نے اس کے بارہ میں ذکر کرتے ہوۓ فرمایا :

{ یہ ہے وہ جہنم جسے مجرم جھٹلاتے تھے ، اس کے اورکھولتے ہوۓ گرم پانی کے درمیان چکر کھائيں گے } الرحمن ( 43 - 44 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے ان کے پینے اورلباس کے بارہ میں کچھ اس طرح فرمایا :

{ پس کافروں کے لیے تو آگ کے کپڑے کاٹ کر بناۓ جائیں گے ، اوران کے سروں کے اوپر سے سخت گرم کھولتا ہوا پانی بہایا جاۓ گا ، جس سے ان کے پیٹ کی سب چيزیں اورکھالیں گلادی جائيں گي ، اوران کی سزا کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہیں } الحج ( 19 - 21 ) ۔

واللہ اعلم .

یہ مضمون کتاب : الاسلام اصولہ ومبادؤہ سے لیا گيا ۔
تالیف : ڈاکٹر محمد بن عبداللہ بن صالح السحیم ۔

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ