سٹیلائٹ کے ذریعہ دعوتی کام کرنے کا حکم

سٹیلائٹ کے ذریعہ دعوتی کام کرنے کا حکم کیا ہے ؟

الحمد للہ
خیروبھلائ اورنیکی کی دعوت دینا دین اسلام کا ایک اہم کام ہے جس پر اسلام بہت زیادہ زوردیتا ہے ، اس لیے کہ یہ ایسا وسیلہ ہے جو اسلام کے پھیلنے اورنشر ہونےاورعدل کے ثابت ہونے میں اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔

چاہے یہ کام امر بالمروف سے ہو یاپھر نہی عن المنکر کے ساتھ ، یا پھر اس میں قدوہ حسنہ استعمال کیا جاۓ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

{ تم میں سےایک جماعت ایسی ہونی چاہيۓ جو بھلائ کی طرف بلاۓ اورنیک کاموں کا حکم کرے اوربرے کاموں سے منع کرے ، اوریہی لوگ فلاح وکامیابی حاصل کرنے والے ہيں } آل عمران ( 104 ) ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اس آیت کامقصد یہ ہے کہ امت میں اس کام کے لیے ایک گروہ لازمی ہونا چاہیے اگرچہ یہ کام ہرایک فرد پربھی واجب ہے لیکن اس پروجوب افراد کے حسب حال ہی ہوگا ۔

جیسا کہ صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :

( تم میں سے جوبھی کسی برائ کودیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے اوراگر اس کی طاقت نہ ہوتووہ اسے اپنی زبان سے منع کرے اوراگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر اسے دل سے ہی برا جانے اوریہ ایمان کا کمزور ترین حصہ ہے ) صحیح مسلم ۔ ا ھـ ۔

اوردعوت الی اللہ کا کام بہت ہی افضل ہے جس کے برابر کوئ نہيں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اوراس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلاۓ اورنیک کام کرے اورکہے کہ میں یقینا مسلمانوں میں سے ہوں } فصلت ( 33 ) ،

اوریہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ انسان کوئ بھی کام کرنا چاہے تواس کےمقصدومطلب کو حاصل کرنے کےلیے کوئ وسیلہ یااسلوب ہونا ضروری ہے ۔

اوروسائل کے احکام اس کے مقاصد کے تابع ہيں ، لھذا حرام چيزکا وسیلہ بھی حرام ہوگا اورواجب کا وسیلہ بھی واجب ہے اوراسی طرح باقی احکام میں ۔ دیکھیں الفروق للقرافی ص ( 144 ) ۔

اوراسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مشروع چيز کے لیے وسیلہ بھی مشروع ہو ، اوردعوت الی اللہ تووسائل کی محتا ج ہے تا کہ اسے مکلفین تک پہنچا یا جا سکے اوران وسائل ميں سے قدوہ حسنہ اورصالحہ اوروعظ ونصیحت اورجدال بحث ومباحثہ یا پھر کوئ مضمون یا کتاب لکھنے میں اچھی بات ہے ، یا اس کے باوہ میں جوبھی ہو وہ اچھے اوراحسن انداز میں پیش کرنا چاہیے ۔

( اھداف دعوت کوحاصل کرنے کے لیے ہروہ وسیلہ جواس میں ممد ومعاون ہو حاصل کیا جاسکتا ہے جب تک وہ حرام نہ ہو ) دیکھیں الموسوعۃ الفقیھیۃ الکویتیۃ ( 20 / 332 ) ۔

موجودہ نۓ دورمیں بہت سے وسائل اعلام ذرائع ابلاغ ظاہر ہوچکے ہیں جن میں ميگزین و اخبارات اور ریڈیو ٹی وی اورٹیلی فون ، فیکس ، ٹیلکس ، ٹیلیگرام ، اوراب اس نۓ دورمیں تو انٹر نیٹ وغیرہ اب تو دنیا کے کسی بھی کونے میں بات چیت کی جاسکتی ہے اورحالات کی خبر لی جاسکتی ہے ۔

اوراس مادی ترقی کے دورمیں ان وسائل کے حصول کی دوڑ لگی ہوئ ہے تاکہ ملکوں اورمعاشروں پرغلبہ حاصل کیا جاسکے اوراپنی فکری اورمادی ترقی کودوسروں پرٹھونسا جاسکے ۔

اورعالم اسلامی کواس حالت میں غفلت اورناپسندیدگی نے آلیا ہے جس کی بنا پرمسلمان میں کئ ایک راستے بن چکے ہیں کچھ کوتواس ترقی کے پیچھے بھاگنے کی بنا پر فخرو غرور نے آلیا ہے اوران کا سانس پھولا ہوا ہے ۔

اورکچھ ایسے مسلمان بھی ہیں جواس سے تجاھل برتتے ہیں اوراسے قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے ترک کرنے میں ہی یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ یہی مناسب موقف ہے ۔

اورکچھ ایسے بھی ہیں جو ایک غوروفکر تامل و بیداری کا موقف رکھتے ہیں اورانہیں ڈرتے ہوۓ استعمال کرتے ہيں – میرے بھائ - آپ علم رکھتے ہوں گے کہ پہلااوردوسرا موقف صحیح اورموافق نہیں ۔

اورصحیح اورسلیم موقف تیسرا ہی ہے ۔

اورجس طرح شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

مغربی ترقی و تمدن میں کے بارہ میں موقف چارقسموں میں منحصر ہے جس کی پانچویں قسم ہے ہی نہیں :

پہلی : اس ترقی و تمدن کوبالکل ترک کرنا چاہے وہ نفع مند ہو یا نقصان دینے والی ۔

دوسری : مکمل طور پراسے حاصل کرنا چاہے وہ نقصان دہ ہو یا فائدہ مند

تیسری : نقصان دہ کو لینا اورنفع مند کوچھوڑ دینا ۔

چھوتی : اس میں سے نفع مند کو لینا اورنقصان دہ کو ترک کردینا ۔

توہم بلا شک وشبہ پہلی تین کوباطل اور غلط پاتے ہیں ، اوران میں سے صرف ایک ہی بلاشک و شبہ صحیح ہے جو کہ سب سے آخر چوتھے نمبر پر آتی ہے ۔ اضواء البیان ( 4 / 382 ) ۔

اوراس تمھید کے بعد اوراس کی روشنی میں ہم وسائل اعلام اورذرائع ابلاغ کے بارہ میں گفتگو آگے بڑھاتے ہیں چاہے وہ عربی ہوں یا غیرعربی میں ۔

چاہے ان کا تعلق اختیاری طباعت سے ہو یا پھر دعوتی اوراعلانی ہوں یا ان کا تعلق کھیلوں کی دنیا سے یا فنی ہوں ۔۔۔ الخ یا ان تعلق عموم لحاظ سے کسی چيز سے بھی ہو اوران میں عدم خصوصیت ہو ۔

تو غیور علماء کرام اورطلباء اورمھذب اورعام لوگوں کے ہاں جو سوال بہت زیادہ پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شرعی طورپران وسائل ( ذرائع ابلاغ ) کے ساتھ ایجابی لحاظ سے کس حد تک فائد اٹھایا جاسکتا ہے ؟

وہ اس طرح کہ ان میں فتاوی جات اوربات چیت اوراپنی راۓ کا اظہار کیا جاۓ توکیا یہ مشروع ہے یا کہ نہیں ؟ اوراس کی دلیل کیا ہے ؟

قبل اس کے ہم کچھ آراء کا ذکر کریں ایک بہت ہی اہم معاملہ پرتنبیہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم ریڈیو اورٹی وی کے بارہ میں اس قدیم اختلاف کوایک طرف رکھتے ہوۓ اس سے آگے گزرتے ہیں اوراس کے بارہ میں وہ راۓ جوانہیں ناجائز قرار دیتی ہو بالکل مناقشہ نہيں کریں گے جوکہ اسے باطل لھو لعب شمارکرتی ہے یا پھر ٹی میں تصویر کے پاۓ جانے سے بھی صحیح نہیں ۔

میں کہتا ہوں کہ ہم اس سے آگے اس راۓ تک جاتے ہیں جس میں یہ کہا گيا ہے کہ یہ توعادی وسائل ہیں جن سے اس وقت تک استفادہ کرنا صحیح ہے جب تک اس میں کوئ ممنوع اورمحذور چيز نہ ہو ۔

عربی اورغیرعربی فضائ چینلوں میں مشارکت کا حکم :

ظاہر ہے کہ اس مسئلہ میں دو راۓ سے زیادہ نہیں ہوسکتیں ۔

پہلی : اس میں شرکت کرنی جائز نہيں ۔

دوسری : ان میں شرکت کرنی جائز ہے ۔

اوراگرچہ بعض اہل علم کی راۓ میں کچھ تفصیلات کا بھی ذکر ہونا چاہيۓ جن کا ہم ذکربھی کریں گے ۔

میں کوشش کروں گا کہ جتنا بھی ممکن ہوسکے ان آراء کو بادلائل ذکر کروں اورپھر ان کا مناقشہ بھی کروں ۔

سب سے پہلے توہم عدم مشارکت کا قول لیتے ہیں کہ ان میں شرکت کرنی صحیح نہیں ۔

ان کے سب سے اہم اورواضح دلائل یہ معلوم ہوتے ہیں :

1 - اس لیے کہ ان وسائل کی بنیاد باطل پر رکھی گئ ہے اس لیے کہ اصلا ان وسائل اعلام اورذرائع ابلاغ کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ اور علم و فضل کوپھیلانا نہیں ہے بلکہ ان کی اساس تو غیر صحیح قسم کے اھداف پررکھی گئي ہے چاہے ان کی اھداف کی کتنی بھی قسمیں ہوں وہ سب ایک ہی حوض میں گرتے ہیں جو کہ ( لھو باطل ) ہے ۔

اورلگتا ہے کہ یہ چینل اوروسا‏ئل اس سے متفق ہیں کہ عورت اپنے سب فتنوں اورزيب زینت اورکلام کے ساتھ مشاھدہ کرنے اورسننے والوں کواپنی طرف کھینچنے کا ایک اقرب ترین وسیلہ ہے ۔

جس طرح کہ مشرقی اورمغربی موسیقی اورگانے جاذبیت کا ایک دوسرا وسیلہ ہے ۔

آپ کوان اعلامی مواد کےگندے مضامین سے کافی ہے چاہے وہ بات چیت ہو یا پھر گانے بلکہ خبر بھی ہو یہ سب کچھ اس وقت ہے جبکہ وہ کفرکی قباحتوں اورھلاکتوں سے محفوظ ہو ۔

اوراگر وہ اسی طرح ہویعنی اس میں کفر بھی ہو تویہ پھر فساد کے ذخیرے اورکنوے کے مشابہ ہوگا :

‏‍ا - اللہ سبحانہ وتعای کا فرمان ہے :

{ اورجب آپ ان لوگوں کودیکھيں جو ہماری آیات میں عیب جوئ کررہے ہيں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائيں یہاں تک کہ وہ کسی اوربات مین مشغول ہوجائيں اوراگر آپ کوشیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں } الانفال ( 68 ) ۔

امام شوکانی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے کہ :

اورمعنی یہ ہے کہ جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں کہ وہ ہماری آیات کی تکذیب کرکے اس میں عیب جوئ کررہے ہوں اورآیات کا مذاق اڑا رہے ہوں اوران کا رد کریں توآپ انہیں چھوڑ دیں اوران کے ساتھ مت بیٹھیں تاکہ یہ منکر عظیم سن ہی نہ سکیں حتی کہ وہ کسی اوربات میں مشغول ہوجائيں توآپ ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہيں ۔

ب - اللہ سبحانہ وتعالی نے رحمن یعنی اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا :

{ اورجولوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اورجب کسی لغو چيز سے ان کا گزر ہوتا ہے تو وہ شرافت سے گزر جاتے ہيں } الفرقان ( 72 ) ۔

امام طبری رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :

امام طبری رحمہ اللہ تعالی نے اس آیت میں جھوٹی گواہی کے بارہ میں مفسرین کے اقوال ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ : ان سب اقوال میں اولی اوراقرب الی الصواب یہ ہے کہ وہ لوگ جو باطل چيز کے قریب بھی نہيں جاتے چاہے وہ شرک ہو یا گانا بجانا اورچاہے جھوٹ وغیرہ ہو اورہر اس چيز سے بچتے ہیں جس پر زور اورجھوٹ کا لفظ بولا جاۓ اس لیے کہ اللہ تعالی اس آیت میں ان کی عمومی صفت یہ بتائ ہے کہ وہ جھوٹ کے قریب بھی نہیں جاتے ۔

پھراسی طرح لغو کی تفسیرمیں بھی ایسا ہی معنی ذکر کیا ہے ۔

ج – اورفساد کا کنواں اورذخیرہ بالکل اس مجلس کے مشابہ ہے جس میں اللہ تعالی کی حرمتوں کوپامال کیا جاۓ ۔

امام نسائ رحمہ اللہ تعالی نے جید سند کےساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوشخص بھی اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہے وہ ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھے جہاں پر شراب نوشی کی جارہی ہو ) دیکھیں فتح الباری ( 9 / 250 ) ۔

اوپر بیان کی گئ نصوص و دلائل میں وجہ استشھاد یہ ہے کہ یہ وسا‏‏ئل اعلام اورخاص کرڈش اورٹی وی وغیرہ کلمہ حق اور حق کے داعی لوگوں کومذاق و استھزاء کا نشانہ بناتے ہيں اوران کی عزت سے کھیلتے ہیں ، جبکہ حق بہت بڑے باطل کے ڈھیر میں بھی جمع ہوجاتا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ اورایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اوردنیوں زندگی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے } الانعام ( 70 ) ۔

2 / پھریہ کہ اس میں اہل فضل اورعلماہ کی شرکت سے اس پرشرعی رنگ بھرا جاۓ گا جس سے ان کوچلانے والے اورمالی تعاون کرنے والے اوراسی طرح اس کا مشاھدہ کرنے والے اورسننے والے بھی دلیل پکڑیں گے اورلوگوں کے سادگی سے فائدہ اٹھا کرانہيں خلاف واقعہ بیان کريں گے ۔

دوسری : اس میں شرکت کرنا صحیح ہے :

اس قول کے قائلین بھی کچھ دلائل سے استدلال کرتے ہیں :

( 1 ) ان کا کہنا کہ کسی چيزکا بالذات حرام ( مثلا شراب اورموسیقی اورجھوٹی بات ) ہونے اور اس کی طرف وسیلہ کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے اس لیے کہ ضروری نہیں کہ ہر حرام چيز کا وسیلہ بھی حرام ہو ۔

قرافی نے الفروق میں فرق نمبر ( 58 ) میں تنبیہ کرتے ہوۓ کہا ہے کہ : بعض اوقات حرام چيز کا وسیلہ کسی راجح مصلحت کےتقاضے کی بنا پر حرام نہيں ہوتا ۔

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :

( جوسد ذریعہ کے لیے حرام کیا گيا ہو کسی مصلحت راجحہ کی بنا پر مباح ہوجاتا ہے جس طرح کہ ربا الفضل ( سود ) سے بیع العرایا مباح ہے ۔۔ اورجس طرح کہ کسی عورت کی طرف شادی کرنے کے لیے یا پھر گواہی اورڈاکٹر کے لیے دیکھنا جائز ہے ) اعلام الموقعین ( 2 / 137 ) ۔

تویہاں وسا‏ئل اعلام اورذرائع ابلاغ بھی اسی طرح ہیں بلکہ یہ تو اصلا مباح ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ان وسائل اعلام کے مالک اہل حق ہوں اوراسے حق کو نشرکرنے اورپھیلانے کےلیے استعمال کریں تواس کے جواز میں کسی قسم کا کوئ شبہ نہیں ہوگا ۔

اوراس وقت یہ سب کچھ منبر اوران مجالس اورکلمات کی طرح ہوں گے جوتبلیغ اور آپس میں بات چيت کا ذریعہ بنتے ہیں ۔

اوراگر کوئ وسیلہ شبہات و شہوات کوپیھلانے کا باعث بنے تواہل فضل کو اس سے نہيں روکا جا سکتا کہ وہ ان کے خلاف کام کریں اورمکمل طور پریا حسب امکان کچھ نہ کچھ بیان کریں ۔

اورچلیں کہ کوئ ثقافتی مجلس عام لوگوں کو بلاۓ اوراس نے اپنے دووازے ہر ایک کی شرکت کےلیے کھول رکھے ہوں اورپھر ان میں حصہ لینے والو کی اکثریت اہل باطل کی ہو توکیا اس وقت اہل فضل اوراہل علم اوردعوت دینے والوں کی مشارکت مطلوب نہيں ہوگی ؟

تواس کا جواب یہ ہے کہ کيوں نہیں بلکہ ضرورت ہے ، تو ظاہر ہے کہ ان وسائل اوران مجالس کے درمیان کوئ بڑا فرق تونہیں ہے ۔

اورہو سکتا ہے کہ اس قیاس کا اصلی طورپر شاہد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل جاہلیت کے تہواروں میں شرکت کرنا اوران کے بازاروں میں دعوت دینے کے لیے جانا ہوسکتا ہے ۔

جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں دس برس تک رہے اورلوگوں کوعکاظ اورمجنہ کے بازاروں اورتہواروں میں ان کی جگہوں پرجاکر دعوت دیتے رہے اوریہ فرماتے رہے

( کون ہے جومیری تائيد کرے ؟ کون ہے جو میرا تعاون کرے تا کہ میں اپنے رب کی رسالت کی تبلیغ کرسکوں ؟ اوراسے اس کے بدلے میں جنت ملے گی ) مسند احمد ( 3 / 322 ) ۔

اورربیعہ دیلی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جاھلیت میں سوق ذی المجاز میں یہ فرماتے ہوۓ سنا :

( اے لوگو ! لاالہ الا اللہ پڑھ لو تم فلاح پاؤ گے اورکامیاب رہوں گے ) اس کی سند حسن درجہ کی ہے ۔

اوریہ معروف ہے کہ عکاظ ، اورمجنۃ اورذی المجاز دورجاھلیت میں بازار لگا کرتے تھے جس میں عرب لوگ شعرو شاعری اور ایک دوسرے پر فخر کیا کرتے اوربعض اوراوقات اس میں نفرتیں بھی پیھلتیں اورحسد بھی ہوتا تھا ۔

( 2 ) اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں یہ بھی معروف ہے کہ وہ مشرکوں یھودیوں اورعیسائیوں سے دعوت اسلام کی غرض سے میل جول رکھتے تھے ، اوربعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مشرک یا پھر یھودی آکر بیٹھتے اوران کے ساتھ بات چیت کرتے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پرقرآن مجید پڑھا کرتے تھے ۔

اس پردلائل تومتواتر کے ساتھ پاۓ جاتے ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

اسامہ بن زید رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گدھے پر سوار ہو کر سعد بن عبادہ رضي اللہ تعالی عنہ کی بیمارپرسی کےلیے گیا جوکہ بیمار تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا

اوراس مجلس میں مسلمان بھی تھے اوریھودی اورمشرک بھی سب اکٹھے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوسلام کیا اور کھڑے ہوگۓ اوراپنی سواری سے اترپڑے اورانہیں اللہ تعالی کی دعوت دی اوران پرقرآن مجید کی تلاوت فرمائ ( یہ بہت لمبا قصہ ہے ) امام بخاری نے اسے اپنی صحیح بخاری میں سورۃ آل عمران کی تفسیرباب نمبر 14 میں نقل کیا ہے ۔

اورجب مشرکوں کے ساتھ باوجود اس کے کہ بعض اوقات حق کوکھیل تماشہ بنانے اوراسے رد کرنے والا بھی پایاجاۓ میل جول رکھنا جائز ہے تو ان وسائل اعلام اور ذرائع ابلاغ کو حق بیان کرتے اوراسے پھیلانے کا منبر بنانا کافرسے میل جول اورمناقشہ کرنے میں سے کوئ مختلف تونہیں حالانکہ ہر ایک میں مخالف موجود ہے اورراۓ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔

( 3 ) عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ کی ہر حالت یعنی تنگی اورخوشی کی حالت میں سمع و اطاعت کرنے اورامارت کے معاملہ کوان کے اہل سے نہ چھیننے پر اورہم جہاں بھی ہوں حق ہی کہيں گے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے پر بیعت کی ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

توحدیث میں حیثما کا لفظ ظرف مکان ہے جس کا معنی ہوہے کہ ہم جہاں بھی ہوں ، اورمسلم کی روایت میں ہے کہ اینما کنا ، اوران دونوں کا معنی ایک ہی ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ حدیث میں جویہ کہا گیا ہے کہ : ہم جہاں بھی ہوں حق کی بات کریں گے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کھائيں گے ۔

اس کامعنی یہ ہے کہ ہم ہرزمانے میں اورجگہ پر نیکی کا حکم دیں گے اوربرائ سے منع کریں گے چھوٹے ہوں یا بڑے ہم اس کام میں سستی اورکاہلی کا مظاہرہ نہیں کريں گے اورنہ ہی اس سےخوف محسوس کریں گے ۔ شرح النووی ( 12 / 230 ) ۔

توجب مسلمان سے مطلوب ہی یہ ہے کہ وہ جہاں بھی ہو وہ کلمہ حق بلند کرے اوروسائل اعلام جہاں تک بھی چلے جائيں وہ بھی توظرف مکان میں ہی شامل ہوتے ہیں ۔

( 4 ) اورجب ہم مصالح اورمفاسد کے قاعدہ پربھی اسے پیش کریں تو ان وسائل میں حصہ لینا اورشرکت کرنے کی مصلحتیں ان کے مفاسد پرواضح درجہ سے فوقیت رکھتی ہیں ، جس کی کئ وجوھات ہیں :

ا – اس لیے کہ ان وسائل اعلام سے مستفید ہونے والوں کا کوئ شمار ہی نہیں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، وہ عورتیں ہوں یا مرد اوران کا تعلق مختلف ثقافتی درجات سے ہو اورہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ حق کی بات سنیں اوراسے تسلیم کرلیں اوراس سے متاثر ہو اس لیے یہ دعوت و تبلیغ کے لیے ایک سنہری فرصت ہے ۔

ب – اورپھر یہ سب لوگ برے نہیں یا پھر حق سننے سے بے رغبتی کرنے والے نہیں ، بلکہ اس لیے کہ یہ وسائل اعلام آج اکثر گھروں میں داخل ہوچکے ہیں اورلوگوں پراپنی دھاک بٹھا چکے ہيں اوراکثر لوگوں نے ان میں ترویج اوردعوت کے مکمل اسباب پاۓ تو اس کے ساتھ ہی منظم ہوگۓ ،اوراگراصلاح کے قوی وسائل بھی پاۓ جائيں تووہ بھی ایسا ہی کام کریں ۔

ج - اوراگربعض مسلمان ممالک میں اصلاحی وسائل پاۓ بھی جاتے ہیں توان میں مکمل اورہرقسم کی جاذیبت اورتاثیر نہیں پائ جاتی ، اسی لیے ان کواستعمال کرنے والوں کی تعداد محدود ہی رہتی ہے ۔

لیکن اکثریت توان چینلوں کے ساتھ مربوط ہے حتی کہ ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں ميں سے توبعض ان اصلاحی وسائل سے وحشت کھاتے ہوں کیونکہ وہ توصرف متدین دینی طبقے سے مخاطب ہوتے ہيں اوروہ اپنے آپ کوان دینی لوگوں میں شمار نہیں کرتے ۔

اورظاہر ہے کہ دعوت و تبلیغ کی مسئولیت تواہل علم و فکر سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ لوگوں کی ان سب اقسام کونقصان و تاوان سے نکالنے کےلیے ہر ممکن اورپاۓ جانے والے طریقے سے دعوت وتبلیغ کریں ۔

موازنہ :

اوپربیان کی گئيں سطورسے آپس میں ایک دوسرے کے قریب دووجہیں ظاہر ہوتی ہیں :

اوراگرچہ دوسری وجہ اوپر مذکورہ اعتبارات کی روشنی میں راجح معلوم ہوتی ہے جس کا رد کرنا مشکل ہے یا پھر اس کی شان میں کمی کرنا بھی مشکل نظرآتا ہے ۔

اورجوممانعت کے دلائل ہیں وہ محل نظر میں ہيں ۔

= اللہ تعالی کا یہ فرمان :

{ اورجب آپ ان لوگوں کودیکھيں جو ہماری آیات میں عیب جوئ کررہے ہيں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائيں یہاں تک کہ وہ کسی اوربات مین مشغول ہوجائيں } الانفال ( 68 ) ۔

اس کے بارہ میں یہ کہنا ممکن ہے کہ دعوت دینے والے داعی کےلیے ممکن ہے کہ وہ محظورات مثلا کھیل تماشہ یا موسیقی یا غیرمشروع تجارتی اعلانات کے بغیر اپنا دعوتی کام کرے ۔

تواگریہ کام ہوجاۓ توپھرکوئ کھیل تماشہ اورمذاق نہيں ہوگا اورنہ ہی اس وقت کوئ ممانعت ہے ۔

اوراس حدیث کا بھی یہ ہی جواب دیا جاسکتا ہے :

( جوبھی اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہے وہ ایسے دسترخوان پرنہ بیٹھے جہاں شراب نوشی کا دورچل رہا ہو ) ۔

اوراللہ تعالی کے اس فرمان کے بارہ میں :

{ اوروہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے } ۔

تویہ وسائل بالذات زوریعنی جھوٹ میں شامل نہیں اس لیے کہ وسائل خیربھی ہيں اور شر بھی ، اوریہ ممکن ہے کہ ان میں کچھ وقت اصلاح کےلیے مخصوص کرلیا جاۓ جس میں کوئ کسی قسم کا زور اورجھوٹ شامل نہ ہو ۔

= اوراس قول میں کچھ غورکیا جسکتا ہے کہ ان میں اہل علم و فضل کی شرکت سے ان چینلوں کے شرعی ہونے کا شائبہ ہوتا ہے ۔

اور ہو سکتا ہے یہ اشخاص و حالات کے اعتبار سے مختلف بھی ہو ۔

اورجب ہم دوسرے قول کومذکورہ اعتبارات کی بنا پر راجح قرار دیتے ہیں تواس میں کچھ شروط قیود کا ہونا بھی ضروری ہے ۔

میری نظرمیں وہ اہم شروط اورقیود یہ ہیں :

( 1 ) یہ کہ زمانہ اورمکان اورحالات یہ سب دعوت حق کے مناسب ہوں ، وہ اس طرح کہ ان سب میں کوئ بھی شرعی ممانعت نہ پائ جاۓ مثلا گانے بجانے کے آلات و موسیقی اوربے پرد عورتیں ، اوربے حیا قسم کے تجارتی اعلانات ، اورباطل دین کی ترویج وغیرہ ۔

( 2 ) یہ کہ داعی یا علم دین کے ظن میں مشارکت کا رجحان ہونا چاہیے ، اوروہ قرائن اوراندرونی حالات کے مطابق ہو، مثلا وہ اس چینل کے چلانے والوں سے فضیلت واچھائ کے نشر کی رغبت رکھے ، یا پھردیکھے کہ وہ اپنے پروگرام کوچلانے پرمطمئن نہيں بلکہ وہ کوشش کررہے ہیں کہ اس میں جدت پیدا کی جاۓ ، یا وہ اس کی مشارکت کی وجہ سے ناظرین کے ہاں گرے ہوئ حالت کواچھا کرنا خیال کرتا ہو ۔ اوراسی طرح ۔

( 3 ) یہ اس ميں شرکت کرنے والا اہلیت اورقدرت کا مالک ہوچاہے وہ اہلیت علمی ہویا پھر شخصی ۔

لیکن علمی اورشخصی اعتبارسے کمزور کویہ لائق نہیں دیتا کہ وہ اس میں شریک ہواورخاص کر جب ایسے پروگرام میں شرکت جوکہ کسی اسلام مخالف کے ساتھ بات چیت پرمشتمل ہو ، اس لیے اس کی کمزوری کی بنا پر وہ حق بھی کمزور ہوگا جس کی دعوت دے رہا ہے ، تواس طرح اس کی نسبت اسلام کی طرف کردی جاۓ گی ۔

تواس بنا پرشرکت والامعاملہ مطلقا جائز نہیں اوراسی طرح مطلقا ممنوع بھی نہیں ہے ۔

لیکن میں ہر غیورمسلمان کومتوجہ کرتا ہوں کہ بھلائ کے کام کرنے میں رکاوٹوں کوبڑھا چڑھا کرمبالغہ سے بیان نہ کریں ، میں آپ کے سامنے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی کلام ذکرکرتا ہوں جو انہوں نے اپنی کتاب " الحسبۃ " میں بھلائ کے کام کرنے میں لوگوں کی اقسام بیان کرتے ہوۓ کہی ہے :

( اورکچھ لوگ توامربالمعروف اورنہی عن المنکر اورجہاد فی سبیل اللہ جس سے اللہ تعالی کا دین قائم اوراللہ تعالی کا کلمہ بلندہوتا سے پہلوتہی کرتے ہوۓ پیچھے ہٹے ہوۓ ہیں ، تا کہ وہ فتنہ میں نہ پڑیں حالانکہ وہ فتنہ میں گرچکے ہیں ۔۔۔۔

اور بہت سے بدعتیوں کی حالت یہی ہے کہ وہ اپنے اوپرواجب کردہ امربالمعروف اورنہی عن المنکر اورجہاد فی سبیل اللہ جس سے سب کا سب دین اللہ تعالی کا ہواور اللہ تعالی کا کلمہ بلند ہوتا ہے کوترک کرتے ہیں ۔

تا کہ وہ جنس شہوات کے فتنہ میں نہ پڑ جائيں ، حالانکہ وہ اس فتنہ میں پڑچکے ہیں جو اس سےبھی بڑا اورعظیم ہے جس سے وہ اپنے گمان میں بھاگ رہے ہيں ، ان پرتو واجب یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر واجب کردہ امور کوبجا لائيں اورجن سے انہیں روکا گيا ہے اس سے رک جائيں ، اوریہ دونوں چيز ایک دوسرے سے لازم ہیں ) ۔

میرا علم میں تواتنا ہی ہے اورہر علم والے کے اوپربھی علم رکھنے والا اللہ تعالی ہے ، اوراگر اس میں کچھ خطا اورغلطی و کمی ہو تو میری قراء کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس غلطی کی تصحیح کردیں اوراس کمی کودور کردیں ۔

اوراللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

استاذ ، ڈاکٹر عبداللہ بن ابراھیم الطریقی
پروفیسر شریعت کالج ریاض سعودی عرب

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ