خطبہ جمعہ كے دوران چندہ جمع كرنے كا حكم
خطبہ جمعہ ميں دوسرے خطبہ كے دوران خطيب كے كہنے پر چندہ جمع كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اور دوسرے خطبہ ميں دعاء مانگنے كا حكم كيا ہے، اور كيا دوران خطبہ چندہ دينے اور جمع كرنے كے ليے صفوں كے درميان چلنے والوں كا جمعہ فاسد ہو جاتا ہے ؟
الحمد للہ :
اول:
نماز جمعہ كے ليے آنے والے شخص كے ليے دل و جان اور اعظاء كے ساتھ ہمہ تن گوش خطبہ سننا واجب ہے، اور اس كے ليے كسى بھى كام ميں مشغول ہونا جائز نہيں، چاہے سلام كا جواب يا دوران خطبہ بولنے والے شخص كو خاموش كرانے كے ليے ہى كيوں نہ ہو.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" جو شخص اچھى طرح وضوء كر كے نماز جمعہ كے ليے آيا اور خاموشى سے خطبہ سنا اس كے ليے دونوں جمعوں اور تين يوم كے گناہ بخش ديے جاتے ہيں، اور جس نے كنكريوں كو چھويا اس نے لغو كام كيا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 857 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " جس نے كنكريوں كو چھويا اس نے لغو كام كيا "
اس ميں دوران خطبہ كنكرى وغيرہ كو چھونے اور عبث اور فضول كام كرنے سے منع كيا گيا، اور اس ميں اشارہ ہے كہ دل و دماغ اور اعضاء كے ساتھ ہمہ تن گوش ہو كر خطبہ سننا چاہيے، اور يہاں لغو سے مراد باطل، قابل مذمت، اور مردود ہے. انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 6 / 147 ).
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اس كے ليے دوران خطبہ ہاتھ يا ٹانگ، يا داڑھى، يا لباس وغيرہ سے كھيلنا اور عبث كام كرنا جائز نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے كنكريوں كو چھويا اس نے لغو اور باطل كام كيا "
اور ايك حديث ميں ہے:
" جس نے لغو اور باطل كام كيا، اور لوگوں كى گردنيں پھلانگيں اس كى ظہر كى نماز ہے "
اور اس ليے بھى كہ لغو اور باطل كام خشوع كے مانع ہے، اور اسى طرح اس كے ليے دائيں بائيں ديكھنا اور مڑنا جائز نہيں، اور لوگوں كى طرف نظريں دوڑانا وغيرہ بھى صحيح نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے سے وہ جمعہ نہيں سن سكے گا اور وہ اس ميں مشغول رہے گا.
بلكہ اسے چاہيے كہ وہ خطيب كى طرف متوجہ ہو جيسے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خطبہ كى وقت ان كى جانب متوجہ ہوتے تھے" انتہى بتصرف
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 1 / 176 ).
نماز جمعہ ميں حاضر اشخاص سے چندہ جمع كرنے ميں خطبہ كے ليے بہت زيادہ تشويش ہوتى اور خرابى ہوتى ہے، اور چندہ جمع كرنے والے كى جانب سے چندہ دينے والوں كے ليے بھى حركت كا باعث بنتا ہے، اور پھر اس ميں چندہ جمع كرنے والا شخص لوگوں كى گردنيں پھلانگنے كا بھى باعث بنتا ہے، اور حديث ميں يہ سب كچھ منع كيا گيا ہے.
اور پھر ايسا كرنا جمعہ اور خطبہ كے مقصود كے بھى منافى ہے، اور پھر ايسا كرنے كى ضرورت بھى كوئى نہيں، كيونكہ چندہ نماز جمعہ كے بعد بھى جمع كيا جا سكتا ہے، اور جو شخص دوران خطبہ ايسا كام كرے وہ جمعہ كے اجروثواب سے محروم ہو گا، اور اسے ظہر كى نماز كا اجر ملے گا.
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص جمعہ كے روز غسل كر كے اور بيوى كى خوشبو لگا كر آيا اگر اس كى بيوى ہو، اور اس نے اچھا لباس پہنا، اور پھر لوگوں كى گردنوں كو نہ پھلانگا، اور دوران خطبہ كوئى لغو كام نہ كيا تو دونوں جمعوں كے مابين كفار بنے گا، اور جس نے لغو كام كيا اور لوگوں كى گردنيں پھلانگيں اس كى ظہر ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 347 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 721 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
يعنى اسے ظہر كى نماز جيسا ثواب حاصل ہو گا، اور اپنے لغو كام اور لوگوں كى گردنيں پھلانگنے كى وجہ سے وہ نماز جمعہ كى ادائيگى كے اجرو ثواب سے محروم رہے گا.
ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابو داود.
شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" خطبہ جمعہ سننے والے كے ليے دوران خطبہ مانگنے والے پر صدقہ كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ مانگنے والے نے ايسا كام كيا ہے جو اس كے ليے جائز نہيں تھا، اس ليے ناجائز كام ميں اس كى مدد نہيں كى جائيگى، اور يہ ناجائز كام دوران خطبہ كلام كرنا ہے " انتہى
ديكھيں:الملخص الفقھى ( 1 / 175 ).
دوم:
دوران خطبہ يا خطبہ كى دعاء كے دوران كلام كرنے سے منع كرنے اور كنكري اور سنگريزوں وغيرہ كے ساتھ كھيلنے ميں كوئى فرق نہيں، اور بعض فقھاء جو دعاء كے درميان كلام كرنے كو جائز قرار ديتے ہيں يہ قول ضعيف ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" بعض فقھاء كرام رحمہم اللہ كا كہنا ہے:
جب امام دوران خطبہ دعاء كر رہا ہو تو اس دوران ميں كلام كرنا جائز ہے؛ كيونكہ دعاء خطبہ كے اركان ميں سے نہيں، اور خطبہ كے اركان كے علاوہ ميں كلام كرنى جائز ہے.
ليكن يہ قول ضعيف ہے؛ كيونكہ جب دعاء خطبہ كے متصل ہے تو پھر وہ خطبہ كا حصہ ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كے ہر خطبہ ميں مسلمانوں كے ليے دعاء استغفار كيا كرتے تھے "
لہذا صحيح يہى ہے كہ جب تك امام خطبہ دے رہا ہو چاہے وہ خطبہ كے اركان ميں ہو يا اس كے بعد كلام كرنا حرام ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 110 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
الحمد للہ :
اول:
نماز جمعہ كے ليے آنے والے شخص كے ليے دل و جان اور اعظاء كے ساتھ ہمہ تن گوش خطبہ سننا واجب ہے، اور اس كے ليے كسى بھى كام ميں مشغول ہونا جائز نہيں، چاہے سلام كا جواب يا دوران خطبہ بولنے والے شخص كو خاموش كرانے كے ليے ہى كيوں نہ ہو.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" جو شخص اچھى طرح وضوء كر كے نماز جمعہ كے ليے آيا اور خاموشى سے خطبہ سنا اس كے ليے دونوں جمعوں اور تين يوم كے گناہ بخش ديے جاتے ہيں، اور جس نے كنكريوں كو چھويا اس نے لغو كام كيا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 857 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " جس نے كنكريوں كو چھويا اس نے لغو كام كيا "
اس ميں دوران خطبہ كنكرى وغيرہ كو چھونے اور عبث اور فضول كام كرنے سے منع كيا گيا، اور اس ميں اشارہ ہے كہ دل و دماغ اور اعضاء كے ساتھ ہمہ تن گوش ہو كر خطبہ سننا چاہيے، اور يہاں لغو سے مراد باطل، قابل مذمت، اور مردود ہے. انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 6 / 147 ).
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اس كے ليے دوران خطبہ ہاتھ يا ٹانگ، يا داڑھى، يا لباس وغيرہ سے كھيلنا اور عبث كام كرنا جائز نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے كنكريوں كو چھويا اس نے لغو اور باطل كام كيا "
اور ايك حديث ميں ہے:
" جس نے لغو اور باطل كام كيا، اور لوگوں كى گردنيں پھلانگيں اس كى ظہر كى نماز ہے "
اور اس ليے بھى كہ لغو اور باطل كام خشوع كے مانع ہے، اور اسى طرح اس كے ليے دائيں بائيں ديكھنا اور مڑنا جائز نہيں، اور لوگوں كى طرف نظريں دوڑانا وغيرہ بھى صحيح نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے سے وہ جمعہ نہيں سن سكے گا اور وہ اس ميں مشغول رہے گا.
بلكہ اسے چاہيے كہ وہ خطيب كى طرف متوجہ ہو جيسے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خطبہ كى وقت ان كى جانب متوجہ ہوتے تھے" انتہى بتصرف
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 1 / 176 ).
نماز جمعہ ميں حاضر اشخاص سے چندہ جمع كرنے ميں خطبہ كے ليے بہت زيادہ تشويش ہوتى اور خرابى ہوتى ہے، اور چندہ جمع كرنے والے كى جانب سے چندہ دينے والوں كے ليے بھى حركت كا باعث بنتا ہے، اور پھر اس ميں چندہ جمع كرنے والا شخص لوگوں كى گردنيں پھلانگنے كا بھى باعث بنتا ہے، اور حديث ميں يہ سب كچھ منع كيا گيا ہے.
اور پھر ايسا كرنا جمعہ اور خطبہ كے مقصود كے بھى منافى ہے، اور پھر ايسا كرنے كى ضرورت بھى كوئى نہيں، كيونكہ چندہ نماز جمعہ كے بعد بھى جمع كيا جا سكتا ہے، اور جو شخص دوران خطبہ ايسا كام كرے وہ جمعہ كے اجروثواب سے محروم ہو گا، اور اسے ظہر كى نماز كا اجر ملے گا.
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص جمعہ كے روز غسل كر كے اور بيوى كى خوشبو لگا كر آيا اگر اس كى بيوى ہو، اور اس نے اچھا لباس پہنا، اور پھر لوگوں كى گردنوں كو نہ پھلانگا، اور دوران خطبہ كوئى لغو كام نہ كيا تو دونوں جمعوں كے مابين كفار بنے گا، اور جس نے لغو كام كيا اور لوگوں كى گردنيں پھلانگيں اس كى ظہر ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 347 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 721 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
يعنى اسے ظہر كى نماز جيسا ثواب حاصل ہو گا، اور اپنے لغو كام اور لوگوں كى گردنيں پھلانگنے كى وجہ سے وہ نماز جمعہ كى ادائيگى كے اجرو ثواب سے محروم رہے گا.
ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابو داود.
شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" خطبہ جمعہ سننے والے كے ليے دوران خطبہ مانگنے والے پر صدقہ كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ مانگنے والے نے ايسا كام كيا ہے جو اس كے ليے جائز نہيں تھا، اس ليے ناجائز كام ميں اس كى مدد نہيں كى جائيگى، اور يہ ناجائز كام دوران خطبہ كلام كرنا ہے " انتہى
ديكھيں:الملخص الفقھى ( 1 / 175 ).
دوم:
دوران خطبہ يا خطبہ كى دعاء كے دوران كلام كرنے سے منع كرنے اور كنكري اور سنگريزوں وغيرہ كے ساتھ كھيلنے ميں كوئى فرق نہيں، اور بعض فقھاء جو دعاء كے درميان كلام كرنے كو جائز قرار ديتے ہيں يہ قول ضعيف ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" بعض فقھاء كرام رحمہم اللہ كا كہنا ہے:
جب امام دوران خطبہ دعاء كر رہا ہو تو اس دوران ميں كلام كرنا جائز ہے؛ كيونكہ دعاء خطبہ كے اركان ميں سے نہيں، اور خطبہ كے اركان كے علاوہ ميں كلام كرنى جائز ہے.
ليكن يہ قول ضعيف ہے؛ كيونكہ جب دعاء خطبہ كے متصل ہے تو پھر وہ خطبہ كا حصہ ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كے ہر خطبہ ميں مسلمانوں كے ليے دعاء استغفار كيا كرتے تھے "
لہذا صحيح يہى ہے كہ جب تك امام خطبہ دے رہا ہو چاہے وہ خطبہ كے اركان ميں ہو يا اس كے بعد كلام كرنا حرام ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 110 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ