دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کا حکم
سوال: کیا دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے سے متعلق کوئی حدیث صحیح ثابت ہے؟ کیونکہ امام البانی رحمہ اللہ نے پانچ ایسی احادیث ذکر کی ہیں جن میں صراحت کیساتھ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کا نبوی عمل موجود ہے، لیکن ہمیں صحیح بخاری اور بیہقی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جوروایت ملتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدوں کے درمیان مطلقاً رفع الیدین نہیں کیا، اس بارے میں آپ کیا وضاحت کرینگے ؟
الحمد للہ:
اول:
بخاری: (735) اور مسلم: (390) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے،اسی طرح جب رکوع کیلئے تکبیر کہتے، اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو "سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ" کہتے ہوئے اس وقت بھی رفع الیدین کرتے، تاہم سجدوں میں ایسا عمل نہیں کرتے تھے۔
اسی طرح امام بخاری (739) میں نافع سے نقل کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جس وقت نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر کہتے ہوئے رفع الیدین کرتے، اسی طرح رکوع جاتے ہوئے بھی رفع الیدین کرتے، پھر رکوع سے اٹھتے وقت "سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کہتے ہوئے رفع الیدین کرتے، اور دو رکعتوں سے اٹھتے ہوئے بھی رفع الیدین کرتے ، پھر ابن عمر اس عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل قرار دیتےتھے"
شافعی اور حنبلی رکوع سے اٹھتے ہوئے، رکوع میں جاتے ہوئے رفع الیدین کرنے کے قائل ہیں کہ یہ عمل نماز کی سنتوں میں شامل ہے، بلکہ سیوطی رحمہ اللہ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین بیان کرنے والے صحابہ کرام کی تعداد پچاس ہے۔
اسی طرح شافعی مذہب کے ہاں تشہد سے تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرنا مستحب ہے، اور یہی موقف امام احمد سے ایک روایت کے مطابق ملتا ہے" انتہی
" الموسوعة الفقهية " (27 /95)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رفع الیدین کرنے کی چار جگہیں ہیں: تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے، اور پہلے تشہد سے اٹھنے کے بعد" انتہی
ماخوذ از: " الشرح الممتع " (3 /214)
مزید کیلئے جواب نمبر : (3267) کا مطالعہ کریں۔
نوٹ: "الموسوعة الفقهية" میں شافعی فقہاء کی طرف تشہد سے تیسری رکعت کیلئے اٹھتے وقت رفع الیدین کو مستحب کہا گیا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ شافعی مذہب میں مشہور ، اور اکثر شافعی فقہاء بھی اسی کے قائل ہیں کہ رفع الیدین صرف تکبیر تحریمہ، رکوع جاتے ہوئے، اور رکوع سے اٹھتے ہوئے ہی ہے۔
مزید تفصیلات کیلئے دیکھیں: " المجموع شرح المهذب " از نووی: (3/425)
دوم:
بخاری: (737) اور مسلم: (391) -یہ الفاظ مسلم کے ہیں-اس میں ہے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک بلند کرتے، پھر جب رکوع کرتے تو اس وقت بھی ہاتھوں کو کانوں کے برابر بلند کرتے، اور جب رکوع سے اٹھتے ہوئے "سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " کہتے تو تب بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے"
اسی روایت کو نسائی (1085) نے نقل کرتے ہوئے اس میں اضافہ کیا ہے کہ: "جب آپ سجدہ کرتے ، اور جس وقت سجدے سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھاتے"، اس حدیث کو البانی نے "صحیح نسائی" میں نقل کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سجدوں میں رفع الیدین کرنے سے متعلق صحیح ترین روایت نسائی کی ہے۔۔۔" اس کے بعد سنن نسائی کی روایت نقل کی۔
اسی طرح مسند احمد : (20014) میں ایک حدیث ہے جس کے الفاظ ہیں: "مالک بن حویرث بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں اپنے ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھاتے تھے"
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ : (2449) میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں رفع الیدین کرتے تھے" اس روایت کو بھی البانی رحمہ اللہ نے " ارواء الغلیل" (2/68) میں صحیح کہا ہے۔
اب یہاں پر علمائے کرام کا دونوں احادیث کے درمیان تطبیق سے متعلق اختلاف ہے، کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں سجدوں کے دوران رفع الیدین کی ممانعت ہے ، جبکہ انس اور مالک بن حویرث والی روایت کا مطلب یہ ہے کہ سجدے میں بھی رفع الیدین کیا جاتا تھا:
چنانچہ کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدوں کے درمیان بھی رفع الیدین کر لیا کرتے تھے، لیکن اکثر نہیں کرتے تھے۔
جیسے کہ ابن رجب رحمہ اللہ نے سجدوں کے دوران رفع الیدین کرنے کے بارے میں احادیث ذکر کرنے کے بعد کہا ہے:
"اگر ان تمام روایات کو صحیح ثابت مان لیا جائے ، اور یہ بات یقینی ہو جائے کہ راوی نے دو سجدوں کے درمیان تکبیر کا تذکرہ کرتے ہوئے رفع الیدین کا ذکر شبہ لگنے کی وجہ سے نہیں کیا، تو پھر ان احادیث کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ مالک بن حویرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہما مدینہ نبویہ کے باسی نہیں تھے، بلکہ یہ ایک یا دو مرتبہ مدینہ آئے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا ہو، تاہم یہ ایک بار کا عمل عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے متصادم ہے، حالانکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اور آپ ویسے بھی سنت نبویہ پر عمل کرنے کیلئے بہت ہی زیادہ حرص تھے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین جگہوں کے علاوہ اکثر رفع الیدین نہیں کرتے تھے، تاہم سجدوں سے اٹھتے ہوئے اور دیگر مقامات پر رفع الیدین کرنے سے متعلق ضعیف روایات منقول ہیں " انتہی
"فتح الباری" از: ابن رجب (6/ 354)
سندی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ظاہری طور پر یہی لگتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ایسا کیا کرتے تھے، لیکن علمائے کرام کی اکثر تعداد سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہ کرنے کی قائل ہے، اور انکی دلیل یہ ہے کہ عبادات میں اصل عدم ہے، چنانچہ جب کرنے اور نہ کرنے کی روایات آپس میں متعارض ہوئیں تو انہوں نے اصل کو اپنایا، واللہ اعلم" انتہی
جبکہ متعدد علمائے کرام نے رفع الیدین نہ کرنے کی احادیث کو راجح قرار دیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک نہ کرنے والی احادیث روایت و درایت کے اعتبار سے محفوظ ترین احادیث ہیں، اور جن روایات میں سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کا ذکر ہے، ان احادیث کو انہوں نے شاذ قرار دیا ہے، چنانچہ راوی کو بیان کرنے میں غلطی لگی، اور راوی نے تکبیر کا کہنے کی بجائے رفع الیدین کا ذکر کر دیا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کسی رکن میں جانے اور رکن سے باہر آنے کیلئے تکبیر کہا کرتے تھے، جیسے کہ صحیح بخاری: (785) اور مسلم: (392) میں اس بات کا ذکر ہے۔
اور ترمذی : (253) میں ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر اور عمر نماز میں جھکتے ہوئے، سیدھے ہوتے وقت، اسی طرح ہر قیام اور جلسہ کیلئے تکبیر کہتے تھے"
امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
"عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا عمل ہے، جن میں ابو بکر، عمر، عثمان، علی سمیت دیگر صحابہ کرام و تابعین شامل ہیں، بلکہ اسی پر تمام فقہائے کرام اور علماء کا عمل بھی ہے" انتہی
اسی طرح امام دارقطنی کتاب "العلل"(1763) میں ہے کہ :
"ان سے ابو سلمہ کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حدیث کے متعلق پوچھا گیا، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ابو ہریرہ رضی اللہ نماز کی ہر تکبیر کیساتھ رفع الیدین کرتے، اور کہتے: اگر میرا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو میں اپنی کلائی اٹھاؤں گا، اور اگر میری کلائی بھی کاٹ دی گئی تو میں اپنا بازو اٹھاؤں گا" تو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا:
"اس روایت کو رفدہ بن قضاعہ غسانی نے اوزاعی سے انہوں نے یحیی بن ابی سلمہ کے واسطے سے بیان کیا ہے۔
لیکن اس روایت کو بیان کرتے ہوئے مبشر بن اسماعیل اور دیگر راویوں نے اوازعی سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے یحیی ، اور انہوں نے ابو سلمہ سے روایت کی کہ: "میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو تکبیریں کہتے ہوئے دیکھا۔۔۔ " انہوں نے رفع الیدین کا ذکر نہیں کیا، پھر آخر میں انہوں نے کہا کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ایسے ہی تھی" اس طرح سے روایت درست ہے[یعنی رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے، بلکہ تکبیر کا ذکر ہے]
اسی درست انداز سے روایت محمد بن عمرو عن ابی سلمہ عن ابی ہریرۃ کی سند سے بھی منقول ہے۔
لیکن یہاں بھی دوسری سند سے عمرو بن علی نے صحیح بیان نہیں کیا، چنانچہ عمرو بن علی، عن ابن ابی عدی، عن محمد بن عمرو عن ابی سلمہ، عن ابی ہریرہ کی سند سے بیان کیا کہ: "ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نماز میں ہر جھکاؤ اور اٹھاؤ پر رفع الیدین کرتے، اور کہتے: "میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے ملتی ہے" " لیکن عمرو بن علی کی اس روایت پر کسی نے انکی موافقت نہیں کی، کیونکہ عمر و بن علی کے علاوہ دیگر تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جھکاؤ اور اٹھاؤ میں تکبیر کہا کرتے تھے" اس طرح روایت درست اور صحیح ہے" انتہی
ماخوذ از: "العلل" (9/283)
ابن قیسرانی کی کتاب: "تذکرۃ الحفاظ" (89،نمبر: 192) میں ہے کہ:
192- "نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے ہر جھکاؤ اور اٹھاؤ میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔۔۔" الحدیث
اس روایت کی سند یہ ہے: رفدہ بن قضاعہ غسانی نے اوزاعی سے انہوں نے عبید اللہ بن عبید بن عمیر سے انہوں نے اپنے والد کے واسطے سے دادا سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔
اس حدیث کی سند مقلوب [یعنی اس حدیث کیساتھ موجود سند کسی اور حدیث کی ہے، اور دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیا گیا] ہے، اور یہ حدیث منکر ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نماز کے ہر جھکاؤ اور اٹھاؤ پر رفع الیدین نہیں کیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ زہری عن سالم عن عبد اللہ کی سند سے اس عمل کی نفی ثابت ہے؛ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں فرمایا۔
جبکہ اس روایت کو بیان کرنے والا رفدہ ضعیف ہے، اور اس روایت کو بیان کرنے میں بالکل اکیلا ہے، اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے" انتہی
مزید کیلئے دیکھیں: "منهج الإمام أحمد في إعلال الحديث" ، بشیر علی عمر (1/129-131)
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
بعض احادیث میں دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کا حکم آیا ہے، اور دیگر بعض میں دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین سے ممانعت آئی ہے، ان دو حدیثوں کے درمیان مطابقت کیسے کی جائے گی، اور اس کا حکم کیا ہوگا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"بعض علمائے کرام نے اس مسئلے میں ترجیح کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس حدیث کو ترجیح دی ہے، جس کو امام بخاری اور مسلم نے ابن عمر رضی الله عنہما روایت کیا ہے کہ سجدے میں جاتے ہوئے اور سجدے سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین نہ کیا جائے، اور دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین کی جو روایت ہے اس کو شاذ قرار دیا ہے، اس لئے کہ یہ روایت قابل اعتماد راویوں کی روایت کے خلاف ہے، جبکہ دیگر علمائے کرام نے ان احادیث کے درمیان تطبیق دینے کا راستہ اختیار کیا ہے، [اور ان کی دلیل یہ ہے کہ] ان احادیث کے درمیان مطابقت ممکن ہے، لہذا ترجیح کا راستہ اختیار نہ کیا جائے گا، اس لئے کہ تطبیق دینے سے ہر ثابت و صحیح چیز پر عمل ہو جاتا ہے، جبکہ ترجیح کی صورت بعض ثابت چیزوں کو رد کرنے کا موجب بنتی ہے، اور اس طرح رد کرنا اصول و ضوابط کے خلاف ہے، چنانچہ خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں جاتے ہوئے اور اٹھتے ہوئے کبھی کبھار ہاتھ اٹھائے ہیں، اور کبھی ہاتھ نہیں اٹھائے، چنانچہ ہر راوی نے وہ بیان کیا ہے جو اس نے دیکھا ہے۔
لیکن مذکورہ بالا قاعدے کے پیشِ نظر پہلی رائے پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (6 /345)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ امتیازی خصوصیت تھی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے شیدائی تھے، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑے غور سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ، رکوع جاتے ہوئے، رکوع ے اٹھتے ہوئے، اور پہلے تشہد سے اٹھنے کے بعد رفع الیدین کیا، اور پھر ٹھوس الفاظ میں کہا: "آپ نے سجدے میں رفع الیدین نہیں کیا" چنانچہ یہ اس حدیث سے زیادہ قوی ہے جس میں آیا ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے ہر جھکاؤ اور اٹھاؤ میں رفع الیدین کرتے تھے" یہاں کوئی یہ بات نہ کہے کہ اس جگہ پر نفی اور اثبات دونوں آپس میں متصادم ہے، لہذا جس نے رفع الیدین کے اثبات میں بیان کیا ہے اس کے پاس نفی کرنے والے سے زیادہ علم ہے، چنانچہ اثبات والی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی نفی والی روایت پر مقدم ہوگی؛ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ابن عمر نے رفع الیدین کی نفی اس بنا پر کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیے ہی نہیں، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو رفع الیدین سے متعلق علم یہ حاصل ہوا کہ آپ نے رفع الیدین نہیں کیے، کیونکہ انہوں نے بڑے وثوق سے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے، اور تیسری رکعت کیلئے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کیا، لہذا یہاں یہ مسئلہ نہیں ہے کہ اثبات و نفی کی صورت میں اثبات کو مقدم کیا جائے، کیونکہ یہ معاملہ اس وقت ہوتا ہے جب نفی کرنے والا لا علم ہو، مسئلے کے بارے میں اس کے پاس علم نہ ہو، لیکن یہاں پر نفی کرنے والا علم و یقین اور خوب دھیان سے دیکھنے کے بعد مکمل وضاحت کر رہا ہے کہ کس کس جگہ رفع الیدین ہوا، او رکس کس جگہ رفع الیدین نہیں ہوا، چنانچہ انہوں نے رفع الیدین کی نفی علم کی بنا پر کی ہے، نہ کہ لاعلمی کی بنا پر ، اس باریکی پر غور کریں ، یہ بہت مفید ہے " انتہی
" مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13 /45-46)
لہذا دونوں اقوال میں سے -واللہ اعلم-راجح یہ ہے کہ سجدوں کے درمیان میں رفع الیدین نہ کیا جائے، اور یہی اکثر اہل علم کی رائے ہے، تاہم اگر کسی شخص کے نزدیک رفع الیدین کرنے والی احادیث پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہیں، اور وہ پہلے موقف کے مطابق کبھی کبھی دو سجدوں کے درمیان بھی رفع الیدین کر لیتا ہے تو اسے روکیں مت؛ کیونکہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے۔
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ