كيا دوران خطبہ خطيب كى بات كاٹنى ممكن ہے ؟
كيا خطبہ جمعہ كے دوران خطبہ كو كاٹنا اور تشويش كرنا جائز ہے، اور اسے جائز كرنےوالے اسباب كونسے ہيں ؟
الحمد للہ:
اول:
جب خطيب منبر پر جمعہ كا خطبہ دے رہا ہو تو كلام اور بات چيت كرنا حرام ہے، اور ايسا كرنے والا شخص گنہگار ہو، چاہے اس كى كلام ميں اس وقت اللہ تعالى كا ذكر ہى شامل كيوں نہ ہو.
كيونكہ نمازى كے ليے دوران جمعہ خاموشى اور سكوت اختيار كرنا واجب ہے، اسے اپنے دل اور اعضاء كے ساتھ مكمل خشوع سے خطبہ جمعہ كا وعظ اور اس علم كو سننا چاہيے جس كا وہ محتاج اور ضرورتمند ہے، اس ليے اس دوران بات چيت كرنا جائز نہيں، چاہے اس وقت وہ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر ميں ہى مشغول ہو تو يہ بھى جائز نہيں، حالانكہ اس كا اسے حكم بھى ہے، اگر وہ دوران جمعہ ( خاموش رہو ) يا ( چپ رہو ) جيسا كلمہ بھى كہتا ہے تو صحيح نہيں، اس كى دليل يہ ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جمعہ كے روز امام كے خطبہ دينے كے دوران اگر آپ نے اپنے ساتھى كو خاموش ہو جا كے الفاظ كہے تو آپ نے لغو اور باطل كام كيا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 892 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 851 ).
اللہ تعالى آپ پر رحم كرے ـ ديكھيں كہ آپ كہ كسى شخص كو خاموش رہنے كا كہنا يہ امر بالمعروف اور نھى عن المنكر ميں شامل ہوتا ہے، ليكن شارع عليہ السلام نے اسے بھى لغو كام ميں شمار كيا ہے، جو كہ خطبہ جمعہ كے دوران حرام ہے.
بلكہ معاملہ تو اس سے بھى زيادہ شديد اور سخت ہے، آپ مندرجہ ذيل حديث سنيں:
ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تشريف لے گئے اور لوگوں كو خطاب كرنے لگے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك آيت تلاوت كى اور ميرے پہلو ميں ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيٹھے ہوئے تھے، ميں نے انہيں كہا:
اے ابى ذرا يہ تو بتاؤ كہ يہ آيت كب نازل ہوئى تھى ؟
تو ابى رضى اللہ تعالى نے ميرے ساتھ بات كرنے سے انكار كر ديا، ميں نے پھر ان سے دريافت كيا تو انہوں نے مجھ سے بات نہ كى، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر سے نيچے اتر آئے تو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ مجھ سے كہنے لگے:
آپ كو اس جمعہ سے كچھ حاصل نہيں ہوا سوائے اس كے جو آپ نے لغو كام كيا ہے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز جمعہ سے فارغ ہو چكے تو ميں نے آكر انہيں يہ سب كچھ بتايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" ابى بن كعب نے سچ كہا ہے، جب تم اپنے امام كو خطبہ ديتے ہوئے سنو تو اس كے خطبہ سے فارغ ہو نے تك خاموشى اختيار كرو"
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1111 ) مسند احمد حديث نمبر ( 20780 ) بوصيرى اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 338 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو جب كسى آيت كے متعلق سوال كرنے سے جمعہ كا اجروثواب ضائع ہو جاتا ہے، تو پھر جو شخص تجارت اور زراعت يا دوسرے دنياوى امور كى باتيں كرے اس كا كيا حال ہو گا ؟
اور بعض لوگ اتنے غافل ہيں كہ وہ خطبہ جمعہ كو نيند كے سنہرى موقع سمجھتے ہيں، اور اسے خطبہ جمعہ كے دوران ہى نيند اچھى لگتى ہے.
بلكہ خطبہ جمعہ كے دوران چھينك لينے والے كو يرحمك اللہ كہنا اور سلام كا جواب دينا بھى جائز نہيں.
شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى اس كے متعلق كہتے ہيں:
( تو پھر اس كا ـ يعنى چھينك لينے والے كو يرحمك اللہ كہنا، اور سلام كا جواب ديناـ حكم اصل ميں ايك ہى ہے، يا تو سنت ہے جيسا كہ امام شافعى رحمہ اللہ كى كلام ميں ہے، يا پھر واجب جيسا كہ اكثر علماء كرام كے ہاں راجح ہے، لہذا اس كے منع يا جواز ميں برابرى كرنى چاہيے، اور شافعيہ كے ہاں اس ميں تين وجہيں ہيں: جنہيں امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے " المجموع" ميں بيان كيا ہے ).
اور ان كا كہنا ہے: صحيح اورمنصوص يہ ہے كہ سلام كا جواب دينے كى طرح چھينك لينے والے كو يرحمك اللہ كہنا بھى حرام ہے.
ميں كہتا ہوں: اور اقرب الى الصواب بھى يہى ہے، جس كو ميں نے السلسۃ الضعيفۃ حديث نمبر ( 5665 ) كے تحت بيان كيا ہے.
ديكھيں: تمام المنۃ صفحہ نمبر ( 339 ).
اور اسى طرح ہر قسم كے اذكار و استغفار يا تسبيحات وغيرہ بلند آواز سے نہيں ہونگے حالانكہ يہ اذكار ميں شامل ہيں، ليكن خطبہ جمعہ اللہ تعالى كا ذكر ہے كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:
﴿اے ايمان والو! جب جمعہ كے روز نماز جمعہ كى اذان دى جائے تو تم اللہ كے ذكر كى طرف دوڑے چلے آؤ ﴾الجمعۃ ( 9 ).
جس سعى اور كوشش كا حكم ہے وہ خطبہ اور نماز دونوں كو شامل ہے اور يہ دونوں اللہ كا ذكر ہيں، اور سبحان اللہ وغيرہ يہ سنت ہے، اور اس كے ليے و قت بہت وسيع ہے، ليكن خطبہ اور خطبہ كو سننا يہ ايسا ذكر ہے جو وقت كى تنگى كى بنا پر واجب ہے، اور اس ذكر ميں مشغول رہنے كو باقى ذكر و اذكار پر مقدم كيا جائيگا.
اور اسى طرح خطبيب كى دعاء پر آمين كہنا، اور دوران خطبہ جب نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا نام آئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام نيچى آواز ميں پڑھيں، اس كى آواز بلند نہيں ہونى چاہيے.
دوم:
دوران خطبہ بات چيت اور ذكر واذكار اس وقت ممنوع ہيں جب خطيب خطبہ دے رہا ہو، ليكن اگر امام منبر پر بيٹھا ہوا ہے اور خطبہ نہيں دے رہا تو پھر كلام اور اللہ تعالى كا ذكر كرنے كى حرمت نہيں، كيونكہ مندرجہ بالا حديث ميں يہ الفاظ آئے ہيں:
" جب امام خطبہ دے رہا ہو ..... "
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خطيب كے خطبہ دينے سے مقيد كيا ہے.
اور يہ حديث:
" جب خطبيب منبر پر چڑھے تو كلام اور نماز نہيں ہے .. "
يہ حديث باطل ہے، اس كى كوئى اصل نہيں ملتى.
ديكھيں: السلسلۃ الضعيفۃ ( 87 ).
سوم:
خطيب كے خطبہ كے دوران جن اسباب كى بنا پر كلام اور حركت كرنا جائز ہے وہ درج ذيل ہيں:
اگر كسى نماز كو كوئى ايسى ضرورت پيش آ جائے جو بغير حركت كے رفع نہ كى جاسكے، مثلا اونگھ، يا پھر قضاء حاجت، يا درد جس ميں اسے حركت كى ضرورت پيش ہو اور سكون سےايك جگہ نہ بيٹھ سكے، اس كى دليل يہ حديث ہے:
" تم ميں جب كوئى شخص جمعہ كے روز مسجد ميں اونگھنے لگے تو وہ اپنے جگہ تبديل كر لے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1119 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 526 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 468 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور بيھقى كى روايت ميں يہ الفاظ زيادہ ہيں:
" اور امام خطبہ دے رہا ہو "
اسے بھى علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح كہا ہے.
اور اس كے ليے جو دوران نماز كام كرنے جائز ہيں وہى كام دوران خطبہ بھى جائز ہيں، مثلا گرنے سے بچانے كے ليے كسى اندھے كى راہنمائى كرنا، يا پھر ايسا كام جس كے بغير چارہ نہيں، جو زندگى كى ضروريات ميں شامل ہوتى ہيں اس كے بغير ہلاكت كا خدشہ ہو، يا پھر كسى عظيم مصلحت كے ضائع ہونے كا خدشہ ہو، مثلا امام نمازيوں كو كہے كہ وہ باقى نمازيوں كو پانى پلائيں.
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ايك شخص جمعہ كے روز درالقضاء والے دروائے كى جانب سے ايك شخص مسجد ميں داخل ہوا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہو كر خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے، تو وہ شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف متوجہ ہو كر كھڑا ہو اور كہنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مال اور جانور ہلاك ہو رہے ہيں، اور راستے منقطع آپ اللہ تعالى سے ہمارے ليے بارش كى دعاء كريں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دعاء كے ليے اپنے ہاتھ بلند كيے .... "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 967 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 897 ).
اگر خطيب كوئى آيت بھول جائے تو نمازى كے ليے اس كى غلطى نكالنا صحيح ہے، اور خطيب كے منبر پر ہونے كى وجہ سے اگر اس كے ليے قرآن مجيد كھولنے كى ضرورت محسوس ہو تو بھى كھول سكتا ہے، اور اسى طرح خطيب كسى شركيہ يا بدعتى عمل كو صحيح كہتا ہے تو دوران خطبہ ہى مقتدى اور نمازى اس كا رد كر سكتا ہے، جبكہ ايسا كرنے ميں كوئى فتنہ يا مسجد ميں اس سے بھى بڑھ كر فساد پيدا نہ ہوتا ہو، ليكن اگر فتنہ اور فساد كا خدشہ ہو تو وہ اسے خطبہ كے بعد تك مؤخر كر دے، اور خطبہ كے بعد اسے بيان كرنا چاہيے.
اور اگر خطيب كوئى باطل كلام كرتا ہے، تو اس كى بات سن كر خاموش رہنا واجب نہيں، جيسا كہ بعض سلف رحمہ اللہ سےثابت ہے كہ جب ظالم حجاج منبر پر كھڑا ہو كر على رضى اللہ تعالى عنہ طعن كرتا تو وہ خاموش نہيں ہوتے تھے بلكہ اس كا رد كرتے، اور كہتے كہ ہميں اس قسم كى باتوں كے ليے خاموش رہنے كا حكم نہيں ديا گيا.
ـ اگر خطيب منبر پر خطبہ بھى دے رہا ہو تو تحيۃ المسجد كى دو ركعت ادا كرنى جائز ہيں، بلكہ اس كا حكم ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كے روز خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے تو ايك شخص آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے پوچھا: اے فلان كيا تو نے نماز ادا كى ہے ؟ تو اس نے جواب نفى ميں ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اٹھو اور دو ركعت نماز ادا كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 888 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 875 ).
اور اگر كوئى شخص كسى دوسرے شخص كو بات چيت كرتے ہوئے ديكھے تو اس كے ليے اسے كلام كے ليے ذريعہ خاموش كرانا جائز نہيں، جيسا كہ پہلے بيان ہو چكا ہے، ليكن اسے اشارہ كے ساتھ خاموش كرانا ممكن ہے، يا پھر اپنے ہونٹوں پر انگلى ركھ كر اسے خاموش ہونے كا اشارہ كرے.
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ