كيا ممنوعہ اوقات ميں اسخارہ كي نماز ادا كى جاسكتى ہے ؟
كيا نماز كے ممنوعہ اوقات ميں نماز استخارہ ادا كرنا جائز ہے ؟
الحمد للہ :
سوال نمبر ( 306 ) اور ( 8818 ) اور ( 20013 ) كے جوابات ميں ان اوقات كا بيان ہو چكا ہے جن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز ادا كرنے سے منع فرمايا ہے، اور اس ممانعت سے مراد مطلقا وہ نفلى نماز مراد ہيں جو بغير كسى سبب كے ادا كى جاتى ہوں، ليكن وہ نوافل جو كسى سبب كى بنا پر ہوں مثلا تحيۃ المسجد تو ممنوعہ اوقات ميں ان كى ادائيگى ہو سكتى ہے.
نماز استخارہ كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا يہ سببى نماز ہے يا نہيں ؟
صحيح يہ ہے كہ اگر كسى ايسے كام ميں استخارہ كرنا مقصود ہو جس كے ليے استخارہ مؤخر كرنے سے وہ كام ہاتھ سے نكل جائے تو پھر اس وقت ممنوعہ اوقات ميں استخارہ كيا جاسكتا ہے، مثلا اگر كسى شخص كو عصر كے بعد سفر پر جانے كى ضرورت پيش آجائے.
ليكن اگر كوئى ايسا كام ہو جو استخارہ كو ممنوعہ وقت كے نكلنے تك مؤخر كرنے سے فوت نہ ہوتا ہو تو پھر ممنوعہ وقت ميں نماز استخارہ ادا نہيں كى جائيگى.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" ممنوعہ اوقات ميں سنن مؤكدہ اور سببى نماز ادا كى جائيگى، امام احمد سے ايك روايت يہى ہے، اور ہمارے اصحاب وغيرہ ميں سے ايك جماعت نے يہى اختيار كيا ہے، اور نماز استخارہ كو مباح وقت تك مؤخر كرنے سے كام فوت ہو جانے كى صورت ميں نماز استخارہ ممنوعہ وقت ميں ادا كى جاسكتى ہے.
اور وضوء كے بعد دو ركعت كى ادائيگى مستحب ہے، چاہے ممنوعہ وقت ہى كيوں نہ ہو، شافعيہ كا قول يہى ہے. انتہى
ديكھيں: التفاوى الكبرى ( 5 / 345 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:ط
كيا ممنوعہ اوقات ميں انسان نماز استخارہ ادا كر سكتا ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اگر تو كسى جلد كام كے ليے استخارہ كرنا ہو اور نہى كے زائل ہونے تك مؤخر نہ كيا جا سكتا ہو تو پھر استخارہ كر ليا جائے گا، اور اگر كسى ايسے سبب كى بنا پر استخارہ كرنا ہو جسے مؤخر كرنا ممكن ہو تو پھر استخارہ مؤخر كر ديا جائے" انتھى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثميمين ( 14 / 275 ).
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ