مريض كے حلق ميں خون آنا محسوس كرنا
الحمد للہ:
مريض كو يہ علم ہونا چاہيے كہ اگر روزہ اسے مشقت ديتا ہو تو اس كے روزہ ركھنا مكروہ ہے، اور اگر روزہ ركھنامريض كو نقصان ديتا ہو تو پھر حرام ہو گا، اللہ تعالى نے اسے روزہ نہ ركھنے كى رخصت دى ہے تو اس كے ليے اپنے اوپر مشقت كرتے ہوئے روزہ ركھنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے ليے يہ حلال ہے كہ وہ اپنى جان كو ضرر و نقصان دے.
خون نگلنا روزہ توڑنے والى اشياء ميں شامل ہوتا ہے، ليكن اگر كسى روزہ دار كے حلق ميں اس كے اختيار اور قصد و ارادہ كے بغير كوئى چيز چلى جائے تو اس پر كوئى حرج نہيں، اس سے روزہ نہيں ٹوٹےگا، ليكن اگر وہ اسے جان بوجھ كر نگلے تو پھر ايسا كرنے سے روزہ ٹوٹ جائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر اس كے منہ سے خون نكلا اور اس نے نگل ليا تو اس كا روزہ ٹوٹ جائيگا، چاہے خون تھوڑا سا ہى ہو؛ كيونكہ منہ ظاہر كے حكم ميں ہے، اور جو بھى اس ميں جائے وہ روزہ توڑ دےگا، ليكن اس سے تھوك خارج ہے؛ كيونكہ تھوك سے احتراز كرنا ممكن نہيں، اور اس كے علاوہ باقى اشياء اپنى اصل پر ہى رہينگى، اور اگر اس نے اپنے منہ سے نكال ديا، اور ا سكا منہ نجس رہا يا باہر كى چيز سے نجس ہوا تو اس نے تھوك نگل لى تو اگر اس تھوك كے ساتھ اس نجاست كا كچھ بھى حصہ باقى تھا تو اس سے روزہ ٹوٹ جائيگا، اور اگر نہيں تھا تو نہيں ٹوٹےگا " انتہى.
ديكھيں: المغنى ( 3 / 36 ).
اور مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے علماء كہتے ہيں:
" اور اگر اس كے مسوڑھوں ميں زخم ہونے، يا مسواك كى وجہ سے مسوڑھوں سے خون نكل آيا تو اس خون كو نگلنا جائز نہيں، بلكہ اسے باہر نكالنا ہوگا، اور اگر اس كے اختيار اور قصد و ارادہ كے بغير حلق ميں چلا جائے تو اس پر كچھ نہيں، اور اسى طرح اگر اس كے اختيار اور ارادہ كے بغير قئ واپس پيٹ ميں چلى جائے تو اس كا روزہ صحيح ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 254 ).
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا داڑھ نكالتے وقت خون نكلنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" داڑھ اكھاڑنے سے نكلنے والا خون روزہ پر اثرانداز نہيں ہوتا، اور نہ ہى ضرر ديتا ہے، ليكن روزہ دار كو چاہيے كہ وہ خون نگلنے اجتناب كرے؛ كيونكہ غير عادى اور اچانك نكلنے والا خون نگلنا روزہ توڑ ديتا ہے، بخلاف تھوك نگلنے كے، كيونكہ تھوك نگلنے سے روزہ نہيں ٹوٹتا.
اس ليے جس روزہ دار نے داڑھ نكلوائى ہو اسے يہ احتياط كرنى چاہيے كہ خون اسكے معدہ ميں نہ جائے؛ كيونكہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ليكن اگر اس كے اختيار كے بغير ہى خون حلق ميں چلا گيا تو يہ اسے ضرر نہيں ديگا كيونكہ اس نے ايسا عمدا اور جان بوجھ كر نہيں كيا " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 213 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" اگر انسان كے ناك سے خون بہہ رہا ہو اور كچھ خون اس كے پيٹ ميں چلا جائے اور كچھ باہر نكل آئے تو اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا؛ كيونكہ جو اس كے پيٹ ميں جا رہا ہے وہ اس كے اختيار كے بغير ہے، اور جو باہر نكل رہا ہے وہ اسے كوئى ضرر نہيں ديتا " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 19 ) سوال نمبر ( 328 ).
جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ:
اگر تو اس كے روزہ ركھنا مشقت كا باعث ہے توا سكے ليے روزہ نہ ركھنا مستحب ہے، اور اگر روزہ ركھنا اسے نقصان اور ضرر دے تو پھر روزہ نہ ركھنا واجب ہے.
اور روزہ نہ ركھنے كى حالت ميں اس پر لازم آتا ہے كہ اگر وہ قضاء كى استطاعت ركھتى ہے تو بعد ميں بطور قضاء روزہ ركھے، اور اگر استطاعت نہيں ركھتى تو اس كے ذمہ ہر دن كى بدلے بطور فديہ ايك مسكين كو كھانا كھلانا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اسے صبر كرنے كے صلہ ميں اجر و ثواب سے نوازے، اور اسے بغير كسى تاخير كے جلد از جلد شفاياب كرے اور صحت و عافيت سے نوازے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ