کیا شعبان کے پورے مہینہ میں روزے رکھنے مستحب ہیں

کیا میرے لیے پورے شعبان کے روزے رکھنا سنت ہے ؟
الحمدللہ
شعبان کے مہینہ میں زیادہ سے زيادہ رکھنے روزے رکھنے مستحب ہيں ، حدیث میں بیان کیا گياہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے :
ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ :
( میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے ) ۔
مسنداحمد حدیث نمبر ( 26022 ) سنن ابو داود حدیث نمبر ( 2336 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1648 ) ۔
اورابوداود کے الفاظ کچھ اس طرح ہيں :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے سال میں کسی بھی پورے مہینے کے روزے نہيں رکھتے تھے ، لیکن شعبان کو رمضان سے ملاتے ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 2048 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
لھذا اس حدیث کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورا شعبان روزہ رکھا کرتے تھے ۔
لیکن احادیث میں یہ بھی وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے بارہ میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں :
( آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں ، اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا ، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1156 ) ۔
علماء کرام ان دونوں حدیثوں کو جمع کرنے میں اختلاف کرتے ہیں :
کچھ علماء کرام تو کہتے ہيں کہ یہ اوقات کی مختلف ہونے کی وجہ سےتھا ، لھذا کچھ سالوں میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے تھے ، اوربعض سالوں میں شعبان کے اکثر ایام روزہ رکھتے تھے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے یہی اختیار کیا ہے ۔
دیکھیں مجموع فتاوی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 15 / 416 ) ۔
اورکچھ دوسرے علماء کرام کہنا ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمہینہ میں پورے مہینہ کے روزے نہيں رکھتے تھے ، انہوں نے ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا والی حدیث کو اس پر محمول کیا ہے کہ اس سے مراد اکثر شعبان ہے ، اورلغت میں یہ کہنا جائز ہے کہ جب کوئي شخص کسی مہینہ میں اکثر ایام روزے رکھے تو کہا جاتا ہےکہ اس نے مکمل مہینہ کےروزے رکھے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
عائشہ رضي اللہ تعالی عہنا والی حدیث ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث کی مراد بیان کرتی ہے حدیث ام سلمہ میں ہے کہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ کسی اورمکمل مہینے کے روزے نہيں رکھتے تھے آپ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملاتے تھے ) ۔
یعنی اس کے اکثرایام کے روزے رکھتے تھے ، امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے ابن مبارک رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :
کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئي مہینہ کے اکثر ایام روزے رکھے تو یہ کہا جائے کہ اس نے پورا مہینہ روزہ رکھے ۔۔
اورطیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اسے اس پر محمول کیا جاسکتا ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات پورے شعبان کےروزے رکھتے تھے اوربعض اوقات اکثرایام روزے رکھتے تا کہ یہ خیال پیدا نہ ہو کہ شعبان کے روزے بھی رمضان کی طرح واجب ہیں ۔
پھر حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اورپہلی بات ہی صحیح ہے ۔ ا ھـ
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کے روزے نہیں رکھا کرتے تھے ، اورانہوں نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
( میرے علم میں نہيں کہ اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید ختم کیا ہو ، اورصبح تک ساری رات ہی نماز پڑھتے رہے ہوں ، اوررمضان کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 746 ) ۔
اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کےمکمل روزے نہيں رکھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1971 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1157 ) ۔
امام سندی رحمہ اللہ تعالی ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں :
( شعبان کو رمضان سے ملاتے تھے ) یعنی دونوں مہینوں کے روزے رکھتے تھے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے ، لیکن دوسری احادیث اس کے خلاف دلالت کرتی ہيں ، اس لیے اسے اکثر شعبان پر محمول کیا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں اکثرایام کے روزے رکھتے تھے ، گویہ کہ پورا شعبان ہی روزے رکھے ہوں اورپھر اسے رمضان سے ملاتے تھے ۔ ا ھـ
اگر یہ کہا جائے کہ شعبان میں زيادہ روزے رکھنے میں کیا حکمت ہے ؟
اس کا جواب دیتےہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں:
اس میں اولی تووہی ہے جوامام نسائی اورابوداود نے روایت بیان کی ہے اورابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے کہ :
اسامہ بن زید رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں میں نے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ، اے اللہ تعالی کے رسول آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جورجب اوررمضان کے مابین ہے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں ) سنن نسائي ، سنن ابوداود ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن نسائي ( 2221 ) میں اسے حسن قراردیا ہے ۔
واللہ اعلم .



خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ