نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کس وقت علم ہوا کہ یہودی بھی عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں؟
کیا ایسا نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کے متعلق آخری سال میں ہی علم ہوا تھا کہ وہ بھی عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں؟ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں نو محرم کا روزہ رکھوں گا) مسلم
الحمد للہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آمد کے پہلے سال میں ہی عاشورا کا روزہ رکھا تھا اور آپ تسلسل کے ساتھ عاشورا کا روزہ رکھتے چلے آئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخر میں یہودیوں کی مخالفت کا ارادہ فرمایا اس کیلیے آپ نے دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنے کا عزم فرمایا، عاشورا کے روزے سے متعلق وارد احادیث سے یہ بات واضح ہے۔
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور فرمایا: (یہ کیسا روزہ ہے؟) تو انہوں نے کہا: "یہ نیک دن ہے اس دن میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی اور اس دن موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پھر تو موسی علیہ السلام کے ساتھ میرا تم سے زیادہ تعلق ہے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ خود بھی رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی" بخاری: (2004)
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ: "جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا روزہ خود بھی رکھا اور دوسروں کو بھی عاشورا کا روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی تو صحابہ کرام نے کہا: "اللہ کے رسول! اس دن کی تو یہودی اور عیسائی بھی تعظیم کرتے ہیں!" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پھر آئندہ سال تو ہم نو محرم کا روزہ رکھیں گے) ابن عباس کہتے ہیں: "آئندہ سال آنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی" مسلم: (1134)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے دن کا روزہ وفات سے ایک سال پہلے خود بھی رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، جبکہ پہلی حدیث میں ہے کہ روزہ رکھنے اور اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم مدینہ تشریف آوری کے وقت دیا گیا تھا" انتہی
"زاد المعاد" (2/67)
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث کے بارے میں "زاد المعاد" (2/81) کے اندر مزید کہتے ہیں:
"یہ یقینی امر ہے کہ یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں ہوا ہے تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ابتدائی زندگی میں یہ پسند کرتے تھے کہ جن معاملات میں کوئی خاص حکم نہیں ہے ان میں اہل کتاب کی موافقت کی جائے" انتہی
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پھر جب وفات سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ اس دن کی یہودی اور عیسائی بھی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 محرم کے دن کے ساتھ ایک اور دن کا روزہ رکھ کر ان کی مخالفت کا حکم دیا اور خود بھی اس پر عمل کرنے کا عزم فرمایا۔۔۔" انتہی
"اقتضاء الصراط المستقيم" (1/87)
واللہ اعلم
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ