عمرے کی نیت سے مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہو گیا
سوال: میں اور میری بیوی نے کئی سال قبل عمرہ کیا تھا، اور ہم ریاض کی ایک فیملی کیساتھ ان کی گاڑی میں سوار تھے، میرے دوست نے مجھے کہا کہ ہم مکہ میں احرام کے بغیر داخل ہونگے اور وہاں رات گزارنے کے بعد وہیں سے احرام باندھیں گے، چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا اور ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسا کرنا ممنوع ہے، ہمارا وہ عمرہ نفلی عمرہ تھا، اس کے بعد ہم نے کئی بار میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کیا ہے، تو کیا ہمارے ذمہ اس عمرہ کی وجہ سے کوئی چیز لازم آتی ہے؟
اگر ہمارے ذمہ دم دینا ہے تو کیا کوئی ایسے خیراتی ادارے ہیں جو ہماری طرف سے مکہ میں دم دے دیں، کیونکہ میں ریاض میں کام کرتا ہوں؟
الحمد للہ:
آپ کے دوست نے یہ کہہ کر پہلی غلطی کی کہ آپ میقات سے بغیر احرام (نیت احرام)کے گزر سکتے ہیں، اور دوسری غلطی اس وقت کہ آپ نے مکہ سے ہی احرام باندھ لیا؛ کیونکہ اہل مکہ اور ان کے حکم میں آنیوالے تمام افراد عمرہ کرنا چاہیں تو ان کیلئے قریب ترین حدود حرم سے باہر جا کر احرام باندھنا ضروری ہے۔
شریعت نے مکہ کی جانب عازم صفر حجاج اور معتمرین کیلئے میقات مقرر کی ہیں، چنانچہ ان میقات سے گزرتے ہوئے یا ان کے برابر سے گزرتے ہوئے احرام کی حالت میں ہونا ضروری ہے۔
جبکہ میقات اور مکہ کے درمیان والے حصہ میں رہنے والے لوگ اپنی اپنی جگہ سے ہی احرام باندھیں گے، چنانچہ جدہ یا اسی طرح کی دیگر جگہیں جو میقات اور مکہ کے درمیان آتی ہیں ان کے رہائشی لوگ جب بھی عمرہ کرنا چاہیں تو وہ اپنی اسی جگہ سے احرام باندھیں گے جہاں سے انکی عمرہ کرنے کی نیت بنی ہے۔
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کیلئے ذو الحلیفہ، اہل شام کیلئے جحفہ، اہل نجد کیلئے قرن المنازل، اور اہل یمن کیلئے یلملم میقات مقرر کیا ہے، یہ جگہیں حج یا عمرہ کی غرض سے مقامی اور باہر سے آنیوالے لوگوں کیلئے میقات ہے ، اور جو شخص حدود میقات کے اندر رہے تو وہ اپنے گھر سے ہی تلبیہ کہے گا"
بخاری: ( 1454 ) اور مسلم :( 1181 )
اس لئے آپ کے دوست کو توبہ اور استغفار کرنی چاہیے کہ انہوں نے شریعت کے نام پر غلط شرعی حکم بیان کیا، اور جمہور علمائے کرام کے ہاں آپ سب افراد حرم میں ایک ایک بکری ذبح کریں جسے فقرائے حرام میں تقسیم کیا جائے، اور جس کے پاس اتنی استطاعت نہ ہو تو اس کیلئے توبہ ہی کافی ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"عمرے کی نیت سے میقات سے احرام کے ساتھ گزرنا ضروری ہے، اور بغیر احرام کے میقات سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے، چونکہ آپ سب نے احرام نہیں باندھا تو آپ سب کو الگ الگ دم ادا کرنا ہوگا، جو کہ قربانی کے قابل ایک بکری مکہ میں ذبح کرنے کی صورت میں ہوگا، اسے مکہ کے فقراء میں تقسیم کیا جائے گا، آپ اس گوشت میں سے کچھ نہیں کھا سکتے، جبکہ احرام باندھنے کے بعد دو رکعتیں آپ نے ادا نہیں کیں اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔" انتہی
شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد الله بن غدیان ۔
" فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 11 / 176 ، 177 )
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے حج یا عمرے میں کسی واجب عمل کو ترک کرنے والے کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
" ہم واجب عمل ترک کرنے والے شخص کیلئے کہیں گے کہ: مکہ میں دم دو اور خود فقراء میں تقسیم کرو، یا کسی قابل اعتماد شخص یا ادارے کو نمائندہ بناؤ، اور اگر آپ کے پاس دم دینے کی استطاعت نہیں ہے تو آپ روزہ نہ رکھیں صرف توبہ ہی کریں تو کافی ہے، اس بارے میں ہماری یہی رائے ہے" انتہی
" الشرح الممتع " ( 7 / 441 )
مکہ مکرمہ میں دم کی ادائیگی کیلئے معتمد اداروں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ