ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غارثورمیں رات بسرکرنا
میں اس حدیث کوتلاش کررہا ہوں جس میں یہ قصہ روایت کیا گیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت فرمائ توغار میں چھپے اورفرشتے غار کے دھانے پراپنے پر پھیلاۓ ہوۓ تھے تا کہ جوکفار انہیں تلاش کرتے پھر رہے تھے وہ انہیں دیکھ نہ سکیں ۔
اکثرلوگ یہ جانتے ہیں کہ غارکے منہ پر مکڑی نے جالا بن دیا تھا لیکن میں نے اس حدیث کوضعیف یا ملمع کیا ہوا پایا ہے ، اوروہ روایت جس میں فرشتوں نے غارکے منہ پراپنے پر پھیلا دیے تھے صحیح ہے ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس حدیث کے راوی اور حدیث یا تاریخ کی کتاب بتا دیں جس میں مجھے یہ حدیث مل جاۓ ؟ ۔
الحمدللہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کا غارمیں رات گزارنے کا ذکر قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے جسے ذیل میں آپ کے لیے ذکر کیا جاتا ہے :
اول : کتاب اللہ :
کتاب اللہ میں اس قصہ کوبیان کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ اگرتم ان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ نے ہی ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے نکال دیا تھا ، دومیں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے ، تو اللہ تعالی نے اپنی طرف سے اس پرتسکین نازل فرماکر ان لشکروں سے ان کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں ، اس نے کافروں کی بات نیچی کردی اور اللہ تعالی کا کلمہ ہی بلندوبالا ہے ، اللہ تعالی غالب اورحکمت والا ہے } التوبۃ ( 40 ) ۔
تویہ آیت اس پرواضح نص ہے کہ مشرکوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی پلاننگ کی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکررضی اللہ تعالی عنہ نے غارمیں رات بسر کی تھی ۔
دوم : حديث نبوی
غارمیں رات بسرکرنے کا جوقصہ صحیح احادیث میں وارد ہے وہ کچھ اس طرح ہے :
1 – نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشۃ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں ۔۔۔ پھررسول صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکررضی اللہ تعالی عنہ جبل ثورپرایک غارمیں چلے گۓ اوراس میں تین راتیں بسرکیں ان کےپاس عبداللہ بن ابوبکر رات بسرکرتے تھے جوکہ ایک ذھین تيزاورسمجھ دار نوجوان تھا ، وہ سحری کے وقت وہاں سے نکل آتا توصبح قریش کے ساتھ مکہ میں ہوتا گویا کہ اس نے رات مکہ میں ہی بسر کی ہو ، توقریش جوبھی ان کے خلاف پلان تیار کرتے یہ سن کراسے یاد کرلیتے اوررات کے وقت غارمیں جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی خبر دے دیتا ۔۔ الحدیث ۔
اس حديث طویل حدیث کوامام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے روایت کرنے سے قبل باب یہ باندھا ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کےصحابہ کی مدینہ کی طرف ھجرت ۔ دیکھیں حدیث نمبر ( 3905 ) ۔
2 - ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نےغارمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر کسی نے اپنے قدموں کے نیچے دیکھ لیا تووہ ہمیں دیکھ لےگا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اے ابوبکر ( رضي اللہ تعالی عنہ ) تیراان دنوں کے متعلق کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالی ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3653 ) ۔
مکڑي کے جالے والا قصہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے :
ابن عباس رضی اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان ( اورجب آپ کے بارہ میں کافرلوگ یہ پلاننگ کرہے تھے آپ کو قید کردیں ) کے بارہ میں کہتے ہیں کہ : ایک رات قریش نے مکہ میں مشورہ کے لیے اکٹھے ہوۓ تو کچھ نے یہ کہا کہ جب صبح ہوتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوزنجیروں سے باندھ دو ، اور کچھ کہنے لگے بلکہ اسے قتل کردو ، اورکچھ نے یہ کہا کہ اسے یہاں سے نکال دو ۔
تو اللہ تعالی نے اس کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودے دی توعلی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترپر بسر کی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نکل کرغارمیں چلے گۓ ، اورمشرک رات بھرعلی رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر پہرہ دیتے رہے ، جب صبح ہوئ توان کی طرف بڑھے توجب علی رضي اللہ تعالی عنہ کودیکھا تواللہ تعالی نے ان کی پلاننگ ختم کرکےرکھ دی ۔
تووہ علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھنے لگے کہ نبی صلی علیہ وسلم کہاں ہيں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے توپتہ نہیں ، تووہ ان کا کھوج لگاتے ہوۓ پہاڑ تک جا پہنچے تو ان پرنشانات خلط ملط ہوگۓ تو وہ پہاڑ پرچڑھ گۓ اور غار کے پاس سے گزرے تواس کے دروازے پر دیکھا کہ مکڑی نے جالا بنا ہوا ہے تو کہنے لگے کہ اگراس میں جاتا تو یہ دھانے پر یہ جالا نہ ہوتا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تین راتیں رہے ۔ مسند احمد حدیث نمبر ( 3241 ) ۔
اس حديث کی تصحیح میں علماء کرام کا اختلاف ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں اور ابن کثير رحمہ اللہ تعالی نے البدایۃ والنھایۃ ( 3 / 222 ) اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے سلسلۃ الضعیفۃ میں اسے ضعیف اور شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ تعالی نے مسند احمد کی تحقیق ( 3251 ) میں یہ کہا ہے کہ اس کی سند میں نظر ہے ۔ ا ھـ اور مسند احمد کے محققین نے ( 3551 )اس کی سند کوضعیف قرار دیا ہے ۔ ا ھـ واللہ اعلم ۔
اوردوکبوتروں کا قصہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایۃ والنھايۃ ( 3 / 223 ) میں ذکرکرتے ہوۓ کہا ہے کہ اسے ابن عساکر نے روایت کیا ہے ، پھر حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ، اس طریق سے یہ حديث نہایت غریب ہے اوراسےبھی مسنداحمد کے محققین نے ضعیف قراردیا ہے جس کا ذکراوپر بیان کیا جاچکا ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی سلسلۃ احادیث الضعیفۃ ( 3 / 339 ) میں کہتے ہیں کہ : آپ کوعلم ہونا چاہیے کہ غارکے منہ پرمکڑي کا جالا اور کبوتروں والی حدیث صحیح نہیں جوکہ اکثر کتب اورھجرت کے موضوع پر تقاریرمیں بیان کی جاتی ہے ، تو آّپ کواس کے بارہ میں علم ہونا چاہیے ۔ اھـ
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کوفرشتوں کا اپنے پروں سے چپانے کے متعلق طبرانی نے معجم الکبیر ( 24 / 106 - 108 ) میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہما سے ایک لمبی حدیث بیان کی ہے جس میں ہے کہ :
توابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے اس آدمی کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جوغارکے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرگز نہیں بلاشبہ فرشتوں نےہمیں اپنے پروں سے چھپا رکھا ہے ۔۔۔ الحدیث ۔
تواس حدیث کی سند میں یعقوب بن حمید بن کاسب المدنی ہے ، جس کے بارہ میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔ دیکھیں تھذيب الکمال للمزی ( 32 / 318 - 323 ) ۔
اوراسے ابن معین ، ابوحاتم ، اورامام نسائ رحمہم اللہ تعالی نے ضعیف اور ابوزرعہ رازی نے واھی قرار دیا ہے ، اور ابوداود سجستانی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کی مسند میں ایسی احادیث دیکھیں جن کا ہم نے انکارکیا توہم نےاس سے اصولی طورپرمطالبہ کیا توہم نے دفاع کیا پھر اس نے دوبارہ بیان کردیا توہم نے اصول میں احادیث کوتازہ خط سے بدلا ہوا پایا جوکہ مرسل تھیں اس نے انہیں مسند کردیا اوراس میں زیادتی بھی کی ۔
اورابن عدی کا قول ہے کہ اس اور اس کی روایت میں کوئ حرج نہیں ، لاباس بہ ، اور وہ کثیرالحدیث ہے ، اورکثیر الغرائب بھی ہے ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
یہ علماءحدیث میں سے تھا لیکن اس کی منکر اورغریب احادیث ہیں ۔
اورابن حبان رحمہ اللہ تعالی نے اسے ثقہ کہا اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے صدوق لہ اوھام ، یہ صدوق اور اس کے واھمے ہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی اس کی احادیث کوحسن قراردیتے ہیں لیکن اس حدیث کو حسن کہنے میں توقف اختیار کیا ہے ۔ دیکھیں ضعیفۃ ( 3 / 263)
تواس یعقوب کے بارہ میں مقرر یہ ہوا کہ اس کی احادیث حسن ہوتی ہیں اگرتوسندمیں کوئ اورعلت نہ ہوتو وہ حدیث حسن ہے ۔
پھران کا قول ہے کہ :
طبرانی کا شیخ اوراستاد احمد بن عمرو الخلال المکی کا ترجمہ تومجھے نہیں مل سکا ، اورمعجم الاوسط میں تقریبا سولہ احاديث بیان کی گئ ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان کے مشھور شیوخ میں سے ہے تواگر معروف ہویا متابعت بیان کی جاۓ توحديث حسن ہے ۔ اھـ
واللہ تعالی اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ