والد شادی سے روکے تو کیا قاضی سے شکایت کرنی چاہیے
میری ایک اٹھائیس سالہ سہیلی کے لیے ایک دینی اوراچھے اخلاق والے اوراچھے خاندان کے نوجوان کا رشتہ آیا ہے اوراس کی شھادت لڑکی والے بھی دیتے ہیں ، لیکن میری سہیلی کواس پر بہت تعجب ہے کہ باوجود اس کے کہ والدین اس کے دینی اوراخلاق کی شھادت بھی دیتے ہیں اورپھر رشتہ سے انکار بھی کرتے ہیں ۔
انکار کا فقط سبب یہ ہے کہ وہ لڑکا ان کی برادری اورقبیلہ سے تعلق نہیں رکھتا اورغیربرادری میں شادی کرنا ان کے نزدیک صحیح نہیں ، میری سہیلی نے اپنے والدین کو منانے کی بہت اورہرممکن طریقہ سےکوشش کی ہے لیکن کوئي فائدہ نہیں ہوا ، بلکہ اس نے واسطہ بھی ڈالا ہے جس نے اس کے والد اورچچا سے بات بھی کی ہے ۔
اوراپنے دو چچازادوں کی بھی اس لڑکے کے بارہ میں تحقیق کرنے کے لیے بھیجا جنہوں نے اسے ایک اچھا اوربہتر نوجوان پایا ، انہوں نے بھی لڑکی کے والد سے بات کی لیکن کوئي فائدہ نہیں ہوا ، لڑکی نے اپنے والد کو سمجھایا بھی ہے کہ وہ اب بڑی عمر کی ہوگئي ہے اورشادی کے مواقع بھی کم ہوچکے ہيں ، اوراسے اللہ تعالی کے عذاب سے بھی ڈرایا ہے لیکن اس کے باوجود کوئي فائدہ نہيں اوروالد صاحب نہيں مانے کیونکہ وہ والدہ کی بات تسلیم کرتےہیں اورسب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے جو کہ اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتی رسم رواج کی وجہ سے نہيں بلکہ اس لیے کہ وہ یہ لالچ کرتی ہے کہ بیٹی ملازمت کرے اورٹیچر لگنے کے بعد والدہ کو تنخواہ ملے ۔
میری یہ مشکل ہے اوراب سوال یہ ہے کہ :
کیا اس لڑکی کو عدالت میں جانا چاہیے تا کہ قاضي اس کی شادی اس لڑکے سے کردے ، اورکیا ایسا کرنے میں بہت زيادہ وقت صرف ہوگا تا کہ شادی ہوسکے ، یعنی کیا قاضي اس کے والد کو طلب کرے گا اورمعاملات لمبے ہوں گے اسے یہ خوف ہے کہ اگر اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اورقاضي نے تاریخ مقرر کردی تو یہ احتمال ہے کہ گھر والے وہاں جانے ہی نہ دیں اوراس کی عدم موجودگی میں معاملہ ختم ہوجائے ۔
ہمیں اس موضوع کے بارہ میں معلومات سے نوازیں ، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
الحمدللہ
والدین کا اپنی بیٹیوں کی شادی برادری وقبیلہ کےعلاوہ کہیں اورشادی نہ کرناچاہےاس کی وجہ سے شادی میں تاخیرہی کیوں نہ ہوجائے بہت بڑا ظلم اوراس امانت میں خیانت ہے جواللہ تعالی نے ان کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے ۔
لڑکی کو شادی کرنے سے روکے رکھنا اوراسے گھرمیں بٹھائے رکھنے سے جوفساد بپا ہوتا ہے وہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئي اورنہیں جانتا ، اورپھرآج معاشروں میں نظر دوڑانے والا شخص بھی اسے بخوبی دیکھتا اورمحسوس کرسکتا ہے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مفاسد کی طرف اشارہ کرتےہوئے کچھ اس طرح فرمایا :
ابو حاتم المزنی رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کا دین اوراخلاق تمہیں پسند ہو تو اس کی شادی ( اپنی بیٹی ) سے کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تو پھر زمین میں وسیع و عریض فتنہ بپا ہوجائے گا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1084 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے ۔
جوولی بھی اپنی اپنی ولایت میں پلنے والی کسی عورت کو دینی اوراخلاقی طور پر پسندیدہ رشتہ آنے کے باوجود شادی سے منع کرتا ہے وہ اس کے لیے عاضل شمار ہوگا اورولی بھی نہیں رہے گا بلکہ اس کے علاوہ کوئي اورقریبی ولی بنے گا اورولایت اس سے منتقل ہوجائے گی ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :
( عورت جب کسی سے شادی کرنے کا مطالبہ کرے اوروہ رشتہ بھی اس کے کفوو برابری کا ہو اوردونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں تولڑکی کواس سے شادی نہ کرنے دینے کو عضل کہتے ہیں ۔
معقل بن یسار رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نےاپنی بہن کی ایک شخص سے شادی کردی تواس نے طلاق دے دی جب اس کی عدت ختم ہوگئي تو وہ پھرشادی کا پیغام لے کر آيا ، تو میں نے اسے کہا میں نے تیری شادی کی اوراسے تیرے ماتحت کیا اورتیری عزت افزائي بھی کی لیکن تو نے اسے طلاق دے دی اوراب پھر اس سے شادی کرنا چاہتا ہے ! اللہ کی قسم وہ کبھی بھی تیری بیوی نہیں بن سکتی ، اوراس شخص میں کوئي حرج بھی نہیں تھا ، اورعورت بھی اس کے پاس جانا چاہتی تھی ۔
تو اللہ تعالی نے یہ آيت نازل فرمادی { تم انہيں نکاح کرنے سے نہ روکو } میں نے کہا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا کرتا ہوں ، راوی کہتے ہيں کہ معقل رضي اللہ تعالی عنہ نے اس کی شادی اسی شخص سے کردی ) صحیح بخاری ۔
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ عورت چاہے مہر مثل یا اس کے سے کم پر شادی کرنا چاہے ۔
اوراگر وہ کسی معین شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوجو اس کا کفو بھی ہے اورولی کسی اور سے شادی کرنا چاہتا ہو لیکن وہ بھی اس کا کفو ہو لیکن ولی اس کی مرضی کے شخص سے جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہے روکتا ہے وہ اس حالت میں بھی اس کے لیے عاضل شمار ہوگا یعنی اسے شادی کرنے سے منع کررہا ہے ۔
لیکن اگر عورت کسی ایسے شخص سے شادی کرنے کا مطالبہ کرتی ہے جو اس کا کفو نہيں تو ولی کو اس سے شادی کرنے سےمنع کرنے کا حق حاصل ہے اس صورت میں وہ عاضل یعنی اسے شادی سے منع کرنے والا شمار نہیں ہوگا ۔ دیکھیں المغنی ( 9 / 383 ) ۔
شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :
( لڑکی جب سن بلوغ کو پہنچ جائے اوراس کا دینی اوراخلاقی لحاظ سے مقبول اورکفورشتہ آئے اورولی بھی اس میں کسی قسم کی جرح وقدح نہ کرے جس کی وجہ سے وہ رشتہ اس لڑکی کے لیے قابل قبول نہ ہو اورجو وہ دعوی کررہا ہےوہ بھی ثابت ہوجائے ، تولڑکی کے ولی کو وہ رشتہ قبول کرتے ہوئے لڑکی کی شادی اس سے کردینی چاہیے ۔
اگر وہ اس کی شادی اس لڑکے سے نہیں کرتا تو اسے ولی ہونے کے ناطے جوکچھ اس پرلڑکی کے بارہ میں واجب ہوتا ہے یاد دلایا جائے ، اگر وہ اس کے باوجود شادی نہ کرنے پر مصر ہو تو اس کی ولایت ساقط ہوجائے گی اورلڑکی کا ولی قریبی عصبہ بن جائے گا ) دیکھیں فتاوی الشيخ محمد ابراھیم رحمہ اللہ تعالی ( 10 / 97 ) ۔
اورشيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
( جب عورت کے ولی کے پاس دینی اوراخلاقی لحاظ سے کفو رشتہ آئے اوروہ لڑکی کی شادی اس کے ساتھ کرنے سے انکار کردے تو اس کی ولایت سب سے قریبی عصبہ کی طرف منتقل ہوجائے گی ، اگر وہ بھی شادی کرنے سے انکار کردیں جیسا کہ غالبا ہوتا ہے توپھر ولایت شرعی حاکم کی طرف منتقل ہوجائے گی ۔
اورشرعی حاکم لڑکی کی شادی کرے گا ، اس پر بھی واجب ہے کہ جب اس کے پاس یہ مقدمہ پہنچے اور یا ثابت ہوجائے کہ لڑکی کے اولیاء نے لڑکی شادی کرنے سے انکار کردیا ہے تو پھر وہ خود لڑکی کی شادی کرے کیونکہ جب خاص ولایت نہ ہو تو اسے عام ولایت حاصل ہے ) ۔
فقھاء رحمہم اللہ تعالی نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اگر ولی کسی کفو رشتہ سے لڑکی کی شادی کرنے سے انکار کرتا اور ایسا کئي ایک بارکرے تو اس سے وہ فاسق ہوجائے گا اوراس کی ولایت ساقط ہوجائے گی ، بلکہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا مشہور مسلک تو یہ ہے کہ اس سے امامت کا حق بھی ساقط ہوجائے گا اوروہ نماز میں امام نہیں بن سکتا یہ معاملہ تو اور بھی خطرناک ہے ۔
جیسا کہ ابھی ہم اوپراشارہ بھی کرچکے ہیں کہ لڑکیوں کے کچھ اولیاء تو صحیح رشتہ کو بھی رد کردیتے ہیں جوکفو بھی ہوتے ہيں اورلڑکی حیاء کے پیش نظر قاضی کے پاس جاکر شادی کا مطالبہ نہیں کرتی ، بلکہ فی الواقع ایسا ہوتا ہے ، لیکن لڑکی کو چاہیے کہ وہ مصلحت اورفساد کے مابین مقارنہ اورموازنہ کرے کہ کس میں فساد زیادہ ہے یہ کہ وہ شادی کے بغیر بیٹھی رہے اوراس کا ولی اپنے مزاج اورخواہش پر عمل کرتے ہوئےاس کے بارہ میں جوچاہے فیصلہ کرتا پھرے ، اوراس کی شادی کرنے کی عمر ہی ڈھل جائے اورشادی کی طلب نہ رہے ۔
یا کہ اسے قاضي کے پاس جا کر اسے اپنی شادی کا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ تو لڑکی کا ایک شرعی حق بھی ہے ۔
بلاشک دوسرا عمل یعنی قاضي کے پاس جانا زيادہ اولی اورافضل ہے کہ وہ وہاں جا کرشادی کا مطالبہ کرے جو کہ اس کا حق بھی ہے ، اورپھر اس لیے بھی کہ اس کا قاضی کے پاس جانا اورشادی کے مطالبہ پر قاضي کا اس کی شادی کرنے میں اس کے علاوہ دوسری کی بھی مصلحت ہے ، کیونکہ جس طرح یہ قاضي کے پاس آئي ہے وہ بھی قاضی کے پاس آئے گی ۔
اورپھر قاضی کے پاس جانے میں ان ظالموں کے ظلم کو بھی روکنا ہے جنہيں اللہ تعالی نے ان لڑکیوں کا ولی بنایا اوروہ ان کے لیے صحیح اور کفو رشتہ آنے کے باوجود ان کی شادی نہ کرکے ظلم کررہیں ہیں ۔
یعنی ایسا کرنے میں تین طرح کی مصلحتیں پائي جاتی ہيں :
عورت کے لیے اپنی مصلحت کہ وہ شادی کے بغیر نہیں رہے گی ۔
دوسری لڑکیوں کی بھی اس میں مصلحت ہے کہ وہ اس انتظار میں ہے کہ کون یہ دروازہ کھولے اوروہ بھی اس کی پیروی کریں ۔
لڑکیوں کے اولیاء کو ظلم سے باز رکھنا جو اپنی ولایت میں موجود لڑکیوں پر اپنے مزاج کے مطابق فیصلے کے ان کی شادی نہ کرکے ان پر ظلم کرتے ہیں ، اورجو چاہیں ان کے بارہ میں فیصلہ کرتےہیں ۔
اوراس میں ایک یہ بھی مصلحت ہے کہ ایسا کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل بھی ہوتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کےدین اوراخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے ( اپنی لڑکی کی ) شادی کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں وسیع وعریض فساد بپا ہوجائے گا ) ۔
اوراسی طرح ایسا کرنے میں ایک خاص مصلحت یہ بھی ہے کہ جولڑکے اخلاقی اوردینی طورپر لڑکیوں کے کفو میں شمار ہوتے ہيں وہ رشتہ لینے آئے ہیں ان کی خواہش اورمقصد کی بھی تکمیل ہے کہ اپنی خواہش کو جائز طریقے سے عورتوں کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں ۔ انتھی ۔
دیکھیں فتاوی السلامیۃ ( 3 / 148 ) ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا یہ بھی کہنا ہے کہ :
لیکن کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں کہ جس میں لڑکی اس بات کی جرات کرے کہ جب اس کا والداسے ایسے شخص سے شادی نہ کرنے دے جو دینی اوراخلاقی لحاظ سے اس کا کفو ہو تو وہ لڑکی قاضی سے جا کرشکایت کرے ، اورقاضی اس کےوالد سے کہے کہ اس کی شادی اس شخص سے کردو وگرنہ میں کرتا ہوں یا پھر تیرے علاوہ کوئی ولی کردے گا ۔
اس لیے کہ لڑکی کو حق حاصل ہے کہ جب اس کا والد اسے شادی نہ کرنے دے ( تو وہ قاضی سے شکایت کردے ) اوریہ اس کا شرعی حق ہے کاش ہم اس حد تک نہ پہنچيں ، لیکن اکثر لڑکیاں شرم وحیاء کی وجہ سے ایسا نہیں کرتیں ۔آپ اس کی مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 10196 ) کابھی مطالعہ کریں ۔
لڑکی کی شادی کرنے کا سب زيادہ حقدار اس کا والد ہے ، پھر اس کے بعد دادا چاہے وہ اوپرکی نسل میں ہی ہو ، پھر اس کے بعد عورت کا بیٹا ، پوتا اگرچہ اس سے نیچے کی نسل میں ہی ہو ، پھر لڑکی کا سگا بھائي پھر عورت کا صرف والد کی طرف سے بھائي پھر ان کی اولاد چاہےوہ کتنے ہی نيچے درجہ کےہی ہوں ، پھر چچے ، پھر ان کی اولاد چاہے نیچی نسل ہی ہو پھر باب کی طرف والد کی طرف سے چچا پھر حکمران ۔ دیکھیں المغنی ( 9 / 355 ) ۔
ہمیں یہ توعلم نہیں کہ شرعی عدالت اس کام کےلیے زیادہ وقت لیتی ہے یا کم ، یہ ممکن ہے کہ قاضي کو اس بات کی تنبیہ کر دی جائے یہ احتمال ہے کہ اس کا والد دوبارہ عدالت میں آنے سے روک دے ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کی مشکلات دور کرے اورآپ کے معاملے کو آسان فرمائے ۔
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ