سوال
روزے کی سنتیں کیا ہیں ؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
روزے کی سنتیں بہت ہیں جن میں سے چند ایک ذیل میں دی جاتی ہيں :
اول :
روزے دار کے مسنون ہے کہ جب اسے کوئي گالی گلوچ یا لڑائي کرے تو وہ اس سے بہتراوراچھا سلوک کرے اوراسے کہے کہ میں روزہ سے ہوں ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( روزہ ڈھال ہے لھذا روزہ دار کسی کوگالی گلوچ نہ کرے اورنہ ہی جہالت کے کام کرے اوراگر کوئي شخص اس سے لڑائي کرے یا اسے گالی نکالے تو اسے وہ دوبار کہے کہ میں روزہ سے ہوں ۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقینا روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو اللہ تعالی کے ہاں کستوری سے بھی زيادہ اچھی ہے ، وہ میری وجہ سے اپنا کھانا پینا اورشھوت ترک کرتا ہے ، روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجروثواب دونگا ، اورایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1894 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1151 ) ۔
دوم :
روزہ دارکےلیے سحری کھانا سنت ہے کیونکہ اس کا ثبوت صحیحین کی مندرجہ ذيل حدیث میں ملتا ہے:
انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( سحری کیا کرو اس لیے سحری کھانے میں برکت ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1923 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1095 ) ۔
سوم :
سحری میں تاخير کرنا سنت ہے کیونکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ :
انس زيد بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہيں کہ :
ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے ، راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا : اذان اورسحری میں کتنا فرق تھا وہ کہنے لگے تقریبا پچاس آیت جتنا وقت ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1921 ) ۔
چہارم :
افطاری جلدکرنا سنت ہے ۔
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے ان میں خیروبھلائي موجود رہے گی ) ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1957 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1098 ) ، آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 49716 ) کے جواب کا مطالعہ ضرور کریں ۔
پنجم :
سنت یہ ہے کہ افطاری رطب تازہ کھجوروں سے کرے اگر رطب نہ ملیں تو پکی ہوئي کھجوروں سے اگر یہ بھی میسر نہ ہوں پانی کے ساتھ افطاری کرنا سنت ہے ، کیونکہ حدیث میں ہے :
انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ :
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب سے قبل چند رطب کھجوروں کے ساتھ افطاری کرتے تھے اگر رطب کجھوریں نہ ہوتی تو پکی ہوئي کجھوروں سے افطاری کرتے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہوتی تو آپ چند پانی کے گھونٹ پی کرافطاری کرلیتے ) ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2356 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 696 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 4 / 45 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
ششم :
یہ بھی سنت ہے کہ افطاری کے وقت دعائے مسنونہ پڑھے ، افطاری کے وقت مسنون دعا میں بسم اللہ بھی شامل ہے بلکہ یہ تو صحیح قول کے مطابق واجب ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔
اورافطاری کے وقت مندرجہ ذیل دعا پڑھنی چاہیے جوکہ صحیح حدیث میں ثابت ہے :
( ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله ) پیاس چلی گئي اوررگیں تر ہوگئيں اورانشاء اللہ اجروثواب ثابت ہوگيا ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2357 ) سنن بیہقی ( 4 / 239 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے الارواء الغلیل ( 4 / 39 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
اورلوگوں میں ایک معروف دعا بھی ہے لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے جسے ہم ذيل میں ذکر کرتے ہيں :
( اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت ، اللهم تقبل مني إنك أنت السميع العليم ) اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اورتیرے رزق پر ہی افطاری کی ، اے اللہ مجھ سے یہ قبول فرما بلاشبہ تو سننے والا اورجاننے والا ہے ۔
یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے زاد المعاد میں کہا ہے دیکھیں زاد المعاد ( 2 / 51 ) ۔
احادیث میں روزہ دار کی دعا کے بارہ میں فضیلت وارد ہے :
1 - انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تین دعائيں رد نہيں ہوتیں : والد کی دعا ، اورروزہ دار کی دعا ، اورمسافر کی دعا ) سنن بیہقی ( 3 / 345 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ ( 1797 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
2 - ابوامامۃ رضی اللہ تعالی عنہ مرفوعا بیان کرتے ہیں :
( ہرافطاری کے وقت اللہ تعالی آزادی دیتے ہیں ) مسند احمد حدیث نمبر ( 21698 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الترغیب ( 1 / 491 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
3 - ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ :
( ہر دن اوررات ( یعنی رمضان میں ) میں اللہ تعالی آزادی دیتے ہیں ، اورہر دن اوررت میں مسلمان کی دعا قبول ہوتی ہے ) اسے بزار نے روایت کیا ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الترغیب ( 1 / 491 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
؎واللہ اعلم