مریض کس طرح وضو کر کے نماز ادا کرے؟
سوال
مریض کس طرح وضو کر کے نماز ادا کرے؟ براہ کرم تفصیل سے بتلائیں، شکریہ
جواب کا متن
الحمد للہ.
"اول: مریض کے لیے طہارت:
1- مریض پر بھی اسی طرح حدث اصغر اور اکبر سے طہارت حاصل کرنا ضروری ہے جیسے تندرست آدمی پر لازم ہوتا ہے، اس لیے حدث اصغر کی صورت میں وضو کرے اور حدث اکبر کی صورت میں غسل کرے۔
2-جو مریض پیشاب یا پاخانہ کرے تو اس کے لیے پانی سے استنجا کرنا یا مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنا یا ان کے قائم مقام [ٹشو پیپر وغیرہ] کا استعمال کرنا لازم ہے۔
مٹی کے ڈھیلے استعمال کرتے ہوئے تین پاک ڈھیلے استعمال کرنا لازم ہے، نیز لید یا ہڈی ، یا کوئی بھی کھانے کی چیز ، اور کوئی بھی قابل احترام چیز استنجا کرنے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مٹی کے ڈھیلے یا ان سے ملتی جلتی کوئی چیز مثلاً: ٹشو پیپر وغیرہ استعمال کرے اور پھر پانی سے جگہ صاف کرے؛ کیونکہ مٹی کے ڈھیلے سے نجاست زائل ہو گئی اور پانی سے وہ جگہ صاف ہو جائے گی اس طرح اچھی طرح طہارت حاصل ہو گی۔
انسان کو پانی کے ساتھ یا مٹی وغیرہ سے استنجا کرنے کی چھوٹ ہے، اگر ان میں سے کسی ایک پر اکتفا کرنا چاہے تو پانی پر اکتفا کرنا افضل ہے؛ کیونکہ اس سے نجاست بھی زائل ہوتی ہے اور جگہ بھی صاف ہو جاتی ہے حتی کہ نجاست کے اثرات بھی باقی نہیں رہتے، تو پانی زیادہ صفائی کا باعث بنتا ہے، اور اگر ڈھیلے استعمال کرنا چاہے تو تین ڈھیلے کافی ہیں بشرطیکہ جگہ صاف ہو جائے ، اور اگر جگہ تین ڈھیلے استعمال کرنے پر بھی صاف نہیں ہوتی تو پھر چوتھا اور پانچواں ڈھیلا بھی شامل کر لے یہاں تک کہ جگہ صاف ہو جائے، افضل یہی ہے کہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرے۔
دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر بایاں ہاتھ کٹا ہوا ہے، یا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے یا بیماری کی وجہ سے بایاں ہاتھ استعمال نہیں کر سکتا تو پھر ضرورت کی بنا پر دائیں ہاتھ سے استنجا کر لے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خرید و فروخت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کار
سوال
تجارت کے لیے سنت طریقہ کار کیا ہے؟ مجھے یہ جاننے کا شوق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کس طرح تجارت کیا کرتے تھے، آپ سامان تجارت کیسے پیش کرتے تھے؟ قیمت اور سامان کا تبادلہ کیسے کرتے؟ اور اگر واپس کرنی ہو تو کیسے کرتے تھے؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تجارتی لین دین اور خرید و فروخت کے لیے طریقہ کار کا خلاصہ درج ذیل نکات میں ممکن ہے:
1-نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بعثت سے قبل اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارت کی تھی، اسی طرح سیدہ خدیجہ کے پاس بھی کام کیا، اور اس غرض سے ملک شام کا سفر بھی کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم مقامی سطح پر منعقد ہونے والے مجنہ اور عکاظ جیسے بازاروں میں بھی لین دین کرتے تھے، یہ دونوں دورِ جاہلیت کے کاروباری میلے تھے تاجر حضرات دور دور سے ان میں خرید و فروخت کے لیے شرکت کرتے تھے۔
2-نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی اپنے لیے چیزیں خریدا کرتے تھے جیسے کہ سیدنا عمر کے اونٹ اور پھر سیدنا جابر رضی اللہ عنہما کے اونٹ کے واقعہ میں آتا ہے، یا پھر آپ اپنے لیے چیز خریدنے کی ذمہ داری کسی کو سونپ دیتے تھے جیسے کہ سیدنا عروہ بن ابو الجعد البارقی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں قربانی کے جانور یا مطلق بکری کی خریداری کے لیے ایک دینار دیا، تو انہوں نے ایک دینار سے دو بکریاں خریدیں اور پھر دونوں میں سے ایک بکری ایک دینار کے عوض فروخت کر دی، اب آپ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک دینار بھی لے آئے اور بکری بھی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لیے خرید و فروخت میں برکت کی دعا کر دی، تو آپ رضی اللہ عنہ مٹی بھی خریدتے تو اس میں بھی انہیں نفع ہوتا تھا۔
اس روایت کو ترمذی: ( 1258 ) ، ابو داود: ( 3384 ) ، ابن ماجہ: (2402 ) نے بیان کیا ہے، نیز البانی ؒ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
3- نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم تاجر برادری کو حسن سلوک سے پیش آنے ، سچ بولنے اور صدقہ کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
الف: چنانچہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خریدار اور دکاندار کو جدا ہونے تک بیع جاری رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے، اگر دونوں سچ بولیں اور ہر ایک واضح بات کرے تو ان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر دونوں بات چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جاتی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1973) اور مسلم : (1532) نے روایت کیا ہے۔
ب: اسماعیل بن عبید بن رفاعہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ عید گاہ کی جانب گئے تو لوگوں کو وہاں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے تاجروں کی جماعت!) اس پر سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنی گردنیں اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب دیکھنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً تاجر قیامت کے دن گناہگار حالت میں اٹھائے جائیں گے، ماسوائے اس کے جو تقوی الہی اپنائے، حسن سلوک سے پیش آئے اور سچ بولے۔)
اسے ترمذی: ( 1210 ) اور ابن ماجہ: ( 2146 ) نے روایت کیا ہے، نیز البانیؒ نے اسے " صحيح الترغيب " ( 1785 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔
ج: قیس بن ابو عرزہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے: (تاجرو! خرید و فروخت میں لغو باتیں اور قسمیں شامل ہو جاتی ہیں، تم اپنی تجارت میں صدقہ ملایا کرو)
اس روایت کو امام ترمذی: ( 1208 ) ، ابو داود: ( 3326 ) ، نسائی: (3797 ) ، اور ابن ماجہ: ( 2145 ) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔