گناہوں کا گناہ گار پر اثر
سوال: میں نے اپنا فریضۂ حج ادا کیا لیکن حج کے بعد کچھ ماہ گزرنے پر بھی میرے اندر حج قبول ہونے کی علامات نظر نہیں آئیں کہ نیکیوں کی جانب راغب ہونے کی کوئی چیز مجھ میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ میں نے بہت سے پاپ کئے ، پھر گزشتہ سال میں نے اپنی فوت شدہ والدہ کی جانب سے حج کرنے کا عزم کیا میں نے کسی عالم دین سے اس بابت پوچھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں اپنی والدہ کی طرف سے حج کرنے کی نیت کرو ں اور ساتھ میں کثرت سے استغفار کروں، اور اللہ تعالی سے خوب الحاح کے ساتھ دعائیں مانگوں، تو میں نے ایک حج گروپ کے ساتھ مل کر حج کیا اور طوافِ وداع کے دوران بہت زیادہ رش تھا چنانچہ ہم نے ایک چکر اور دوسرے چکر کا کچھ حصہ تو مطاف کے صحن میں کیا اور پھر ہم چھت کی جانب چلے گئے؛ کیونکہ رش بہت زیادہ تھا، اور اسی وجہ سے ہم اس جگہ کو یاد نہیں رکھ سکے جہاں ہم صحن میں دوسرے چکر میں رکے تھے تاہم کوشش کی کہ ہم اسی جگہ سے ہی اپنا طواف شروع کریں جہاں سے ہم نے نیچے صحن میں چھوڑا تھا اس طرح ہم نے طواف وداع مکمل کیا۔
آخری حج کے بعد جب بھی میں گناہوں میں ملوث ہوا -اور مجھ سے حج کے بعد کافی گناہ سر زد ہوئے ہیں-تو مجھے دل میں کڑھن اور سنگ دلی محسوس ہوئی، اور اگر میں نیکی کرتا تو مجھے نیکی کی لذت محسوس ہوتی اور عصرِ حاضر میں مسلمانوں اور اسلام کی حالت دیکھ کر مجھے ترس بھی آتا۔
مجھے اپنے سابقہ دونوں حجوں کے بارے میں پریشانی لاحق ہے اور اسی طرح آپ مجھے میرے طواف کے بارے میں بھی بتلائیں۔ اللہ تعالی آپ کو اجر سے نوازے۔
الحمد للہ:
اول:
ہم سائل کو چھوٹے بڑے ہمہ قسم کے گناہوں سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو ہر طرح کے گناہوں سے دور رکھیں؛ کیونکہ گناہوں کی نحوست گناہگار پر لازمی آتی ہے، اس بارے میں ہم آپ کو ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو میں سے گناہوں کے کچھ منفی اثرات ذکر کرتے ہیں:
1- علم سے محرومی: کیونکہ علم تو ایک روشنی اور نور ہے جو اللہ تعالی دل میں ڈالتا ہے، لیکن گناہوں سے یہ روشنی بجھ جاتی ہے ، اسی لیے جب شافعی رحمہ اللہ امام مالک کے پاس حصولِ علم کے لیے بیٹھے اور ان کے سامنے پڑھنے لگے تو امام مالک کو ان کی ذہانت ، فطانت اور فہم و فراست بہت پسند آئی اور پکار اٹھے: "مجھے نظر آ رہا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہارے دل پر نور ڈال دیا ہے لہذا اس نور کو اپنے گناہوں سے مت بجھانا"۔
2- روزی سے محرومی: چنانچہ مسند احمد میں ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک آدمی کو گناہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے روزی سے محروم کر دیا جاتا ہے ) ابن ماجہ (4022) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ میں حسن قرار دیا ہے۔
3- گناہ گار کے دل میں اپنے رب کے بارے وحشت ہو جاتی ہے، بلکہ لوگوں سے تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں، سلف صالحین کا کہنا ہے کہ: "میں جب اللہ تعالی کی نافرمانی کروں تو اس کا اثر اپنی سواری اور اپنی بیوی میں دیکھتا ہوں"
4- معاملات بگڑ جاتے ہیں: کسی بھی کام کی جانب ہاتھ بڑھائے تو اس میں رکاوٹیں ہی رکاوٹیں کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں، تو یہ بالکل اس کا برعکس ہے کہ اگر کوئی اللہ تعالی سے ڈرے اور تقوی اپنائے تو اللہ تعالی اس کے آسانیاں ہی آسانیاں پیدا فرما دیتا ہے۔
5- گناہ گار کو اپنے دل میں سیاہی محسوس ہوتی ہے، بلکہ اسے اپنا دل اسی طرح سیاہ نظر آتا ہے جیسے رات کے اندھیرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، تو دل کی سیاہی گناہ گار کے لیے ایسی ہی ہو جاتی ہے جیسے آنکھوں کو اندھیرا نظر آتا ہے؛ کیونکہ اطاعت گزاری نور ہے جبکہ معصیت اندھیرا ہے، اور جس قدر بھی اندھیرا زیادہ ہو گا تو انسان لا شعوری طور پر اتنا ہی بدعات، گمراہیوں اور مہلک امور میں دھنستا چلا جائے گا۔ اس کی مثال ایک اندھے شخص کی طرح ہو گی جو رات کے اندھیرے میں تن تنہا نکل کھڑا ہو، پھر یہ سیاہی اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لیتی ہے کہ اس کی آنکھوں پر اس سیاہی کا قبضہ ہو جاتا ہے پھر مزید مضبوط ہونے پر پورے چہرے پر پھٹکار پڑی ہوئی نظر آتی ہے اور ہر ایک اس پھٹکار کو محسوس بھی کرتا ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "نیکی کی چہرے پر خاص چمک ہوتی ہے اور دل پر اس کی خاص روشنی ہوتی ہے، نیکی کی وجہ سے روزی میں برکت بھی آتی ہے، بدن طاقت ور ہوتا ہے ، لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت بڑھتی ہے، جبکہ برائی کی وجہ سے چہرے پر پھٹکار پڑتی ہے، دل سیاہی میں ڈوب جاتا ہے ، بدن بھی کمزور ہو جاتا ہے، روزی میں برکت نہیں رہتی اور لوگ بھی بغض کرنے لگتے ہیں"
6- نیکی سے محرومی: اگر گناہوں کی صرف یہی ایک سزا ہو کہ انسان کو گناہ کی وجہ سے نیکیوں سے محروم کر دیا جاتا ہے تو یہ اس کے بدلے کے طور پر کافی ہے؛ پھر اسے گناہ کی وجہ سے ایک اور نیکی سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور پھر نیکیوں کے دروازوں کے بند ہونے کا سلسلہ چل نکلتا ہے تو گناہ کی وجہ سے اسے کئی نیکیوں سے محروم کر دیا جاتا ہے جن میں سے بسا اوقات ایک نیکی دنیا و ما فیہا سے بہتر ہوتی ہے ۔ تو اس کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے کوئی ایسی چیز کھا لی جس کی وجہ سے اسے طویل بیماری کا سامنا کرنا پڑا اور اللہ تعالی کی کئی نعمتوں کو استعمال کرنے سے محروم ہو گیا۔
7- گناہ دیگر گناہوں کا باعث بنتا ہے: یعنی انسان گناہ میں ملوث ہو تو اس ایک گناہ کی وجہ سے کئی گناہ پیدا ہوتے ہیں، یہاں تک کہ انسان کے لیے ان گناہوں سے باہر نکلنا ممکن نہیں رہتا۔
8- گناہ انسان کے عزائم میں کمزوری پیدا کرتے ہیں بلکہ گناہوں کے ارادے کو مضبوط بناتے ہیں، ساتھ میں توبہ کی تمنا کو آہستہ آہستہ موت کے گھاٹ پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان کلی طور پر توبہ سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے جھوٹے لوگ زبان سے بہت زیادہ استغفار اور توبہ کرتے ہیں لیکن ان کا دل نافرمانیوں میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، گناہوں پر مصر ہوتا ہے، بلکہ گناہ کرنے کی تلاش میں ہوتا ہے کہ جیسے ہی موقع میسر آئے تو گناہ کر گزرے، تو ایسا شخص خطرناک ترین بیماری میں مبتلا ہے یہ بیماری اسے تباہ کر سکتی ہے۔
9- گناہ گار کے دل سے گناہ کی برائی ختم ہو جاتی ہے یہاں تک کہ گناہ اس کی فطرت میں شامل ہو جاتا ہے، بلکہ اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں یا لوگ کیا کہیں گے!!
اور یہ مقام اور مرتبہ فاسق لوگوں کا ہے اس مقام پر پہنچ کر ان کی لذت کی انتہا ہوتی ہے، بلکہ فاسق لوگ اپنے گناہوں پر فخر بھی اسی مرحلے میں کرتے ہیں، اپنے کرتوت دوسروں کو بھی بتلاتے ہیں جنہیں پہلے ان کی حرکتوں کا علم نہیں ہوتا اور بڑے فخریہ انداز سے بتلاتے ہوئے کہتے ہیں: دیکھو ! میں نے یوں کیا ، میں نے ایسے کیا!! ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا، ان کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہے، عام طور پر ان کے لیے توبہ کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میری ساری امت کو معاف کر دیا جائے گا، ما سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کو۔ اور یہ بات بھی اعلانیہ گناہ میں شامل ہے کہ اللہ تعالی کسی بندے کے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھے اور پھر وہ بندہ خود ہی اپنی کارستانیوں کا پردہ چاک کر دے اور کہے: دیکھو ! میں نے فلاں دن یہ اور وہ کام کیا تھا، اللہ تعالی نے اس پر جو پردہ رکھا ہوا تھا اس نے خود ہی وہ پردہ چاک کر دیا) بخاری: (5949) مسلم: (2744)
10- گناہوں کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جائے تو اس سے گناہگار کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ غافلوں میں شامل ہو جاتا ہے، جیسے کہ سلف صالحین کا اللہ تعالی کے فرمان: کہنا ہے کہ: {كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}ہر گز نہیں! بلکہ ان کے دلوں پر تو زنگ ہے ان کی کرتوتوں کی وجہ سے۔ [المطففين: 14] یہاں کرتوت سے مراد مسلسل گناہوں میں ملوث ہونا ہے۔
اصل میں انسانی دل گناہ کی وجہ سے میل آلود ہو جاتا ہے لیکن جب میل میں اضافہ ہو جائے تو وہ زنگ میں بدل جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ زنگ بھی مہر اور سکہ بند اور سیل بند ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دل ایک خاص پردے اور غلاف میں چھپ جاتا ہے، چنانچہ اگر ہدایت اور بصیرت مل جانے کے بعد ایسا ہوا ہو تو معاملہ بالکل الٹ ہو جاتا ہے ، اور اس وقت شیطان اسے اپنے شکنجے میں لے کر اسے جہاں چاہتا ہے لیے پھرتا ہے۔"
دوم: آپ نے سوال میں کہا ہے کہ : " میں نے اپنا فریضۂ حج ادا کیا لیکن حج کے بعد کچھ ماہ گزرنے پر بھی میرے اندر حج قبول ہونے کی علامات نظر نہیں آئیں کہ نیکیوں کی جانب راغب ہونے کی کوئی چیز مجھ میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ میں نے بہت سے پاپ کئے " اس کا جواب یہ ہے کہ: قبولیت صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص اپنے کسی بھی عمل کے بارے میں پختگی اور یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالی نے اس کا یہ عمل قبول کر لیا ہے یا نہیں؟
اس لیے مومن نیک اعمال کرتا جاتا ہے اور اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا اللہ تعالی نے اس کا یہ عمل قبول کیا ہے یا نہیں!؟
حتی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "مجھے جس وقت یہ علم ہو جائے کہ میری ایک نیکی اللہ تعالی نے قبول فرما لی ہے تو میرے نزدیک ہر چیز سے محبوب چیز یہ ہو گی کہ مجھے موت آ جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ} بیشک اللہ تعالی متقی لوگوں سے ہی قبول فرماتا ہے۔[المائدة: 27]
چنانچہ انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کثرت سے نیکیاں کرے، نیکیاں کرتے ہوئے اس بات کا اہتمام کرے کہ ان کا طریقہ کار اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو، نیز ایسا انداز اپنائے جس سے وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش ہو سکے، پھر ان کی قبولیت کے لیے اللہ تعالی سے دعا کرے۔
تو سائل سے گزارش ہے کہ اگر آپ کا حج صحیح تھا اور کسی بھی قسم کے ممنوع کام سے خالی تھا تو پھر آپ پر اعادہ لازمی نہیں ہے، جبکہ حج کے صحیح ہونے کا آپ کے گناہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ ان گناہوں پر آپ کا حساب ہو گا، اس لیے موت آنے سے پہلے پہلے ان گناہوں سے توبہ کر لیں۔
سوم:
آپ نے کہا کہ ازدحام کی وجہ سے صحن سے چھت پر جا کر طواف مکمل کیا۔
تو اس مسئلے کا تعلق طواف کے چکروں میں تسلسل قائم رکھنے سے متعلق ہے، تو آپ کے سوال سے ملتا جلتا ایک سوال دائمی فتوی کمیٹی سے بھی پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ: صحن میں شروع کیے ہوئے طواف کو روک کر بالائی منزل میں پورا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: فتاوى اللجنة الدائمة (11/230 ، 231، 232)
اور جہاں تک طواف کی ابتدا کا معاملہ ہے تو وہ وہیں سے شروع ہو گا جہاں آپ نے چھوڑا تھا، اور اگر جس جگہ پر طواف چھوڑا تھا اس جگہ کی تعیین یقینی طور پر ممکن نہ ہو تو انسان غالب گمان پر عمل کرے گا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی تین یا چار رکعات پڑھنے کے متعلق شک کرنے والے کے بارے فرمایا تھا: (کہ صحیح تعداد تلاش کرے اور پھر نماز پوری کرے[یعنی جس تعداد کے متعلق غالب گمان ہو تو اس کے مطابق اپنی نماز پوری کر لے] اور پھر سلام پھیر کر دو سجدے کرے سلام پھیرنے کے بعد) بخاری: (401) مسلم: (572)
مزید کے لیے آپ الشرح الممتع (3/461) دیکھیں۔
اس بنا پر اگر آپ نے چھت پر جا کر طواف مکمل کر لیا اور دوبارہ طواف شروع کرنے کے لیے آپ نے جو کوشش کی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ان شاء اللہ
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ