اگر کوئی جنبی حالت میں فوت ہو جائے۔
سوال: جو شخص جنبی حالت میں فوت ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ:
اول:
اگر جنبی ہونے کا سبب شرعی طور پر جائز ہو مثلاً اپنی بیوی سے جماع کرے یا احتلام ہو جائے تو کسی شخص کی ایسی حالت میں وفات اس کے کمزور ایمان یا برے خاتمے کی علامت نہیں ہے۔
بلکہ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ کی شہادت جنبی حالت میں ہوئی ہے ، انہیں فرشتوں نے غسل دیا اور ان کا یہ واقعہ مشہور ہے، اس واقعے کو ابن اسحاق وغیرہ نے نقل کیا ہے جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس کا ذکر کیا ہے۔
اسی طرح طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی جنبی حالت میں ہوئی تھی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی سند "لا بأس " درجے کی ہے یعنی کوئی حرج نہیں ہے۔
دوم:
اگر کوئی شخص جنبی حالت میں فوت ہو یا عورت حیض کی حالت میں فوت ہو تو انہیں ایک ہی غسل کافی ہو جائے گا، چنانچہ غسل میت ہی جنابت اور حیض کے لیے کافی ہو گا۔
کیونکہ یہاں پر غسل کے دو اسباب جمع ہو گئے ہیں جنابت یا حیض اور موت، لہذا دونوں اسباب کے لیے ایک ہی غسل کافی ہو گا، ایسے ہی جس طرح وضو کے لیے ایک سے زیادہ اسباب جمع ہو جائیں تو ایک ہی وضو کافی ہوتا ہے جیسے کہ ہوا خارج ہو، پیشاب آ جائے اور گہری نیند آ جائے تو ان سب کی وجہ سے ایک ہی وضو کافی ہے۔
مزید کیلیے آپ "كشاف القناع" (2/87) کا مطالعہ فرمائیں۔
اسی طرح نووی رحمہ اللہ "المجموع" (5/123) میں کہتے ہیں:
"ہمارا موقف یہ ہے کہ جنبی اور حائضہ خاتون اگر فوت ہو جائیں تو انہیں ایک ہی غسل دیا جائے گا، حسن بصری کے علاوہ اسی موقف کے تمام علمائے کرام قائل ہیں ، حسن بصری کا کہنا ہے کہ انہیں دو غسل دئیے جائیں گے۔ ابن منذر نے ان کے اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: یہ بات ان کے علاوہ کسی نے نہیں کی" ختم شد
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ