چاند تیرہ تاریخ کو مکمل نہیں تھا جس کی وجہ سے ایام بیض کے بارے میں شک پیدا ہوا
سوال :میری عادت ہے کہ ہر اسلامی مہینے کی تیرہ ،چودہ اور پندرہ تاریخ کے ہجری کیلنڈر کے حساب سے روزے رکھتا ہوں ۔لیکن مجھے مشکل یہ پیش آتی ہے کہ جب میں اپنے ملک کے ہجری کیلنڈر کے حساب سے تیرہ تاریخ کو چاند دیکھتا ہوں تو وہ نا مکمل ہوتا ہے ،بلکہ پورا ہونے میں ایک یا دو دن باقی ہوتے ہیں
،پھر بھی میں اپنے ملک کے کیلنڈر کے حساب سے روزے رکھ لیتا ہوں ۔ مجھے معلوم نہیں کہ میرا یہ عمل درست ہے یا نہیں ؟کیا مجھ پر اپنے ملک کے کیلنڈر کے حساب سے روزے رکھنا ضروری ہے یا کہ چاند کو دیکھوں کہ مکمل ہوا ہے یا نہیں اور چاند کی رؤیت کے حساب سے روزے رکھوں ۔
الحمد للہ:
1- پہلی بات یہ کہ ایام بیض کے روزے رکھنا سنت ہے اور یہ ایام ہجری مہینے کی 13،14 اور 15 تاریخ کو ہوتے ہیں ؛کیونکہ ترمذی(761)اور نسائی(2424) میں ابو ذر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :“ اگر تو مہینے کے کچھ روزے رکھے تو چاند کی تیرہ ،چودہ اور پندرہ تاریخ کو رکھ ”۔
اسے البانی نے (ارواء الغلیل /9479 ) میں حسن کہا ہے
علماء کی مستقل کمیٹی نے کہا :جو شخص مہینے کے تین روزے رکھنا چاہتا ہے اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ ایام بیض یعنی تیرہ ،چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھے ،اگر ان کے علاوہ دنوں میں رکھے پھر بھی کوئی حرج نہیں ہے ،اور ہمیں امید ہے کہ یہ اس کے لئے سال کے روزوں کے برابر ہے ۔(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ،10/404)
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایام بیض کی معرفت مہینے کے شروع ہونے کی معرفت سے ہو سکتی ہے ،اور مہینہ کی ابتداء کی پہچان چاند کو دیکھنے یا ایک یا اس سے زیادہ قابل اعتبار لوگوں کے خبر دینے سے ہوسکتی ہے کہ وہ خبر دے کہ اس نے چاند کو دیکھا ہے جبکہ رمضان کا مہینہ ہو ،یا دو یا اس سے زیادہ ثقہ آدمی باقی مہینوں کی گواہی دیں ۔
اسی طرح سابقہ مہینے کے تیس دن پورے ہونے سے بھی مہینے کی ابتداء معلوم کی جاسکتی ہے ۔
اور جو غیر اسلامی ملک میں مقیم ہے ،وہ وہاں کے اسلا مک سنٹر ز سے رابطہ اور سوال کرکے مہینے کے آغاز کو جن سکتا ہے ۔
چاند اہل علم و لغت کے مشہور قول کے مطابق صرف چودھویں رات کو ہی مکمل ہوتا ہے ۔
چودھویں رات کو مکمل رات ،لیلۃ البدر اور لیلۃ السواء کہا جاتا ہے ؛کیونکہ اس رات چاند پورا اور برابر ہوتا ہے ۔
ابن جزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :{والقمر إذا اتسق{یعنی جب چودہویں کی رات مکمل ہو جائے ۔ اتسق افتعل کے وزن پر ہے اور وسق سے مشتق ہے ،گویا کہ نور سے بھر گیا ۔ (التسھیل/2581)
اور ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :لیلۃ التمام(مکمل رات ) چودھویں کی رات ہی ہے کیونکہ اس رات چاند کی روشنی مکمل ہوتی ہے ۔(النھایۃ ،1/536)
اور دیکھئے لسان العرب (12/67) اور ابن سیدہ کی المخصص (4/ 438)
چنانچہ چاند کا تیرہ تاریخ کو مکمل نہ ہونا فطرتی بات ہے ۔یہ اس وقت ہے جب کہ آپ کی تیرہ کی رات سے مراد اس دن سے پہلے والی رات ہے جو بارہ تاریخ کے دن کے بعد شروع ہوتی ہے ۔اور اگر آپ کی تیرہ سے مرادآنے والی رات مراد ہے ،جیسا کہ بعض لوگ بولتے ہیں ؛ یہ تو حقیقت میں چودھویں رات ہے ؛کیونکہ رات دن سے پہلے آتی ہے ۔اگر بعض مہینوں میں فی الواقع ایسا ہوا ہے تو اکثر یہ دیکھنے میں خطاء کے سبب ہوتا ہے ۔علاوہ اس کے کہ آپ کے لئے ممکن نہ ہو کہ آپ مہینے کے دنوں اور اس کے شروع ہونے اور نصف ماہ تک ختم ہونے کی پہچان کرسکیں خواہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ ۔
اور جب آپ درمیانِ مہینہ بدر کے مکمل ہونے کا انتظار کریں گے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تیرہ تاریخ سے روزہ شروع کرنا آپ سے فوت ہو جائے ۔
اسی لئے اگر آپ کے ملک میں چاند کی رؤیت معلوم نہ ہو ،یا اس ملک والے اس کا اہتمام نہ کرتے ہوں جیسا کہ رمضان اور حج کے مہینوں کے علاوہ اکثر ملکوں میں ایسا ہی ہے ،تو جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے لئے اپنے ملک کےاسلامک سنٹرز میں معتمد کیلنڈر کے حساب سے ایام بیض کے روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نوافل کی وقت بندی فرائض کی بنسبت آسان ہے ،خصوصا جبکہ ہر مہینے تین روزے رکھنے کی اصل فضیلت ، مہینے کے کسی بھی تین دن روزہ رکھنے سے حاصل ہو جاتی ہے ،اگرچہ ایام بیض میں روزہ رکھنے کا خاص مقام ہے ۔
سوال نمبر (69781)کا جواب ملاحظہ فرمائیں
ابن باز رحمہ اللہ سے عاشوراء کے روزوں کا حکم اور اس کی صفت کے بارے میں سوال کیا گیا کہ لوگوں کی محرم میں تحقیق کی طرف توجہ دلائی جائے؟
انہوں نے جواب دیا :عاشوراء کے دن کا روزہ سنت ہے اور اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے ؛نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اس دن کا روزہ رکھا ہے اور اس سے پہلے موسی علیہ السلا م نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس دن کا روزہ رکھا کیونکہ اس دن اللہ تعالی نے موسی اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی اور فرعون کو اس کی قوم سمیت غرق کیا ۔
البتہ عاشوراء کی رات کی جستجو کرنا ،یہ کوئی لازمی امر نہیں ہے ؛کیونکہ یہ نفلی روزہ ہے نہ کہ فرضی ۔چنانچہ اس کی تحری کی دعوت دینا لازمی نہیں ہے ؛کیونکہ اگر مومن آدمی اس میں غلطی کرتا ہے تو ایک دن پہلے اور ایک دن بعد میں روزہ رکھ لے ،اس کے لئے کوئی حرج نہ ہوگا اور اسے اجر عظیم حاصل ہو جائے گا ۔چنانچہ اس لئے مہینے کے شروع ہونے کا اہتمام ضروری نہیں ہے ؛کیونکہ یہ صرف نفلی روزہ ہے ۔(مجموع فتاوی الشیخ ابن باز،5/401)
شیخ ڈاکٹر عبد الطیار حفظہ اللہ سے کیلنڈر کے حساب سے ایام بیض کے روزے رکھنے کے بارے میں سوال کیاگیا ؛کیونکہ چاند کر رؤیت صرف معین مہینوں میں ہوتی ہے ؟
تو شیخ نے جواب دیا :اس میں کوئی حرج نہیں ۔اگر مسلمان مہینے کے شروع ،وسط یا آخر میں اکھٹے یا متفرق تین روزے رکھ لیتا ہے تو اسے وہ اجر حاصل ہو جائے گا جو حدیث میں آیا ہے کہ (میرے دوست نے مجھے ہر مہینے تین روزے رکھنے ،چاشت کی دو رکعات ادا کرنے او رسونے سے قبل وتر پڑھنے کی وصیت کی (بخاری ومسلم )
واللہ اعلم
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ