نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صومِ داودی کیوں نہیں رکھے؟ حالانکہ آپ نے انہیں افضل ترین روزے قرار دیا ہے؟
سوال: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے داود علیہ السلام کے روزوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (یہ افضل ترین روزے ہیں) لیکن آپ نے اس انداز سے روزے نہیں رکھے، حالانکہ آپ اس انداز سے روزے رکھنے کی استطاعت بھی رکھتے تھے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ: جو شخص صومِ داودی کی طاقت رکھتا ہو اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ اس طرح روزے نہ رکھے؟ تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ہوسکے؟ کیا اسکا مطلب یہی نہیں ہے؟ پھر [احادیث میں اگر اس طرح کا عمل مل بھی جائے تو اس کے بعد] ہم کون ہوتے ہیں کہ اس انداز سے روزے رکھیں، کیونکہ سب سے بڑے متقی اور خشیت والی شخصیت نے اس انداز سے روزے نہیں رکھے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع داود علیہ السلام کی اتباع سے زیادہ ضروری نہیں ہے؟
الحمد للہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ کار تھا کہ بسا اوقات کچھ فضیلت والے اعمال چھوڑ دیتے تھے، حالانکہ آپکی اپنی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ یہ عمل کریں یا لوگ اس پر عمل کریں، اس کے متعدد اسباب ہوتے تھے، جن میں سےچند یہ ہیں:
- اپنی امت کیلئے آسانی ؛ کیونکہ اگر آپ نے کوئی فضیلت والا کام ہمیشگی کیساتھ کیا تو اس طرح سے آپ کی اقتدا و اتباع کا شوق رکھنے والوں کیلئے کسی حد تک مشقت اور مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں ۔
چنانچہ " زاد المعاد في هدي خير العباد " (2 / 96) میں ہے کہ:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر مشقت کے خوف سے بہت سے فضیلت والے اعمال چاہت کے باوجود نہیں کیا کرتے تھے، [یہی وجہ ہے کہ] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ یعنی: خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں سے افسردہ حالت میں باہر آئے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے افسردگی کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: (مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں نے اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈال دیا ہو)" انتہی
- امت پر کسی عمل کے فرض ہونے کا خدشہ، مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نماز تراویح اسی لیے [باقاعدگی سے] نہیں پڑھائی کہ کہیں فرض نہ کر دی جائے۔
یہاں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صیامِ داودی کس لیے نہیں رکھے ، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ کرام کو ان کا مشورہ بھی دیا، بلکہ آپ نے انہی روزوں کو افضل ترین روزے قرار دیا ، جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (افضل ترین روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں، آپ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے تھے)؛ اس کی وجہ یہ تھی کہ امت پر مشقت نہ ہو، کیونکہ اہل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرنے کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیں، اور ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا ان کیلئے مشقت کا باعث ہے۔
اور اس بات کی تفصیلی بیان پہلے فتوی نمبر: (175867) میں گزر چکا ہے۔
- آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات فضیلت والے اعمال اس لیے بھی ترک کر دیتے تھے کہ آپ اس وقت اس سے بھی افضل کام میں مشغول ہوتے تھے، مثال کے طور پر: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں عمرہ کرنے کی ترغیب دلائی ، بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے، لیکن اس کے باوجود آپ نے رمضان میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اس سے بھی افضل عبادات میں مشغول ہوتے تھے، ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی سے متعلق "زاد المعاد" میں پہلے احالہ شدہ جگہ میں گفتگو بھی کی ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد :
جو شخص افضل ترین روزے رکھنا چاہتا ہے وہ داود علیہ السلام کی طرح ایک دن چھوڑ کر داودی روزے رکھے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی سمجھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی روزوں کی اس قسم کے متعلق ہمیں آگاہ کیا ہے، تاہم آپ نے مذکورہ بالا اسباب کی وجہ سے اس پر عمل نہیں فرمایا۔
واللہ اعلم.
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ