انجیل اور تورات کو اپنے پاس رکھنا

 

 

 

 

کیا میرے لۓ یہ صحیح ہے کہ میں انجیل کا ایک نسخہ رکھ لوں تا کہ مجھے اللہ تعالی کی کلام جو کہ اپنے بندے اور رسول عیسی علیہ السلام کے ساتھ کی اس کا پتہ چل سکے ؟

الحمد للہ :

قرآن کی موجودگی میں گذشتہ کتابوں انجیل تورات وغیرہ میں سے کچھ بھی رکھنا دو سبب سے جائز نہیں ۔

پہلا سبب :

اس میں جو کچھ بھی نفع والی اشیاء تھیں اللہ تعالی نے اسے قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے۔

دوسرا سبب :

قرآن میں وہ کچھ ہے جو کہ ہمیں ان کتابوں سے کفایت کرتا ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( اس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے )

تو جو بھی پہلی کتابوں میں کوئی خیر تھی وہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔

اور سائل کا یہ قول کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی کی اپنے بندے اور رسول علیہ السلام کے ساتھ کلام کی جان لے تو اس سے جو نفع مند تھا وہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان کر دیا ہے تو اب اس کی ضرورت نہیں کہ اس کے علاوہ کہیں اور تلاش کیا جائے ۔

اور پھر اس وقت موجودہ انجیل محرف شدہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ انجیل ایک نہیں چار ہیں جو کہ ایک دوسری کی مخالفت کرتی ہیں تو پھر اس پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ۔

لیکن وہ طالب علم جو علم میں متمکن ہے اور یہ چاہتا ہے کہ حق اور باطل کو پہچانے تو اس کے لۓ کوئی مانع نہیں تا کہ اس میں جو کچھ باطل ہے اس کا رد کر سکے اور اس پر عمل کر نے والوں پر جحت قائم کرے  .

محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ
مجلۃ الدعوۃ نمبر 1789 صفحہ نمبر 43

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ