قبر آخرى ٹھكانہ نہيں ہے

 

 

 

 

جب كوئى شخص فوت ہو جاتا ہے تو اخبارات اور جرائد اور خبروں ميں اكثر يہ كہا جاتا ہے كہ وہ اپنے آخرى ٹھكانے كى طرف منتقل ہو گيا، تو كيا قبر آخرى ٹھكانہ ہے ؟

الحمد للہ:

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى تيسويں پارہ كى تفسير ميں كہتےہيں:

قبريں آخرى منزل نہيں بلكہ يہ تو ايك مرحلہ ہے، ايك اعرابى اور ديہاتى شخص نے مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كى تلاوت سنى:

{تمہيں كثرت كے ساتھ جمع كرنے نے ہلاك كرديا، حتى كہ تم نے قبروں كى زيارت كرلى}.

تو وہ ديہاتى كہنے لگا: اللہ كى قسم زيارت كرنے والا كبھى مقيم نہيں ہو سكتا.

تو اس طرح اس ديہاتى نے اپنى فطرت سے يہ بات جان لى كہ ان قبروں كے پيچھے بھى كوئى اور ٹھكانہ ہے، كيونكہ يہ بات تو معلوم ہے كہ زيارت كرنے والا شخص زيارت كر كے چلا جاتا ہے، تو اس سے ہم يہ معلوم كر سكتے ہيں كہ جو كچھ ہم مجلات اور اخباروں ميں پڑھتے ہيں كہ فلاں شخص فوت ہو گيا اور اسے اس كى آخرى آرام گاہ منتقل كر ديا گيا، تو كلمہ بہت بڑى غلطى ہے، اور اس كا مدلول اللہ عزوجل كے ساتھ اور يوم آخرت كے ساتھ كفر ہے.

كيونكہ جب آپ قبر كو آخرى آرام گاہ اور ٹھكانا بنائيں گے تو اس كا معنى يہ ہوا كہ اس كے بعد كوئى چيز نہيں، اور جو شخص يہ نظريہ ركھتا ہے كہ قبر آخرى ٹھكانہ ہے اور اس كے بعد كچھ نہيں وہ كافر ہے، لھذا آخرى ٹھكانہ يا تو جنت ہے يا جہنم. اھـ.

ديكھيں: تفسير جزء عم ( 117 ).الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى.

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ