حرام و حلال اشياء كے كيفے كى كمائى كھانے كا حكم
كيفے كى آمدنى سے آنے والے مال كا حكم كيا ہے، ميں يہاں چند ايك امور كى وضاحت كرتا ہوں:
1 - ڈس كا استعمال كيا جاتا ہے، اور يہاں فحش گانے اور فٹ بال ميچ ہى ديكھے جاتے ہيں.
2 - شطرنج كھيلى جاتى ہے، اور گاہك اس طرح آپس ميں كھيلتے ہيں كہ ہارنے والا كھانے پينے كے اخراجات ادا كريگا، يا پھر جيتنے والے كو رقم دےگا، اور اس ميں كيفے كا بھى حصہ ہوگا.
3 - بہت زيادہ حقہ نوش كيا جاتا ہے.
4 - نوجوان آكر صرف اس ليے بيٹھتے ہيں كہ آنے جانے والى عورتوں كو ديكھيں، جن ميں اكثر بے پرد ہوتى ہيں.
5 - كيفے ميں بيٹھے افراد ايك دوسرے كو بہت ہى گندہ مذاق اور گرے ہوئے بازارى الفاظ استعمال كرتے ہيں.
اب سوال يہ ہے كہ: كيا اس كيفے كى آمدنى حلال اور حرام مال سے مختلط ہوگى ؟
اور كيا ميں اس مال كو كھا سكتا ہوں، ميں كوئى كام نہيں كرتا، يہ علم ميں رہے كہ يہ كيفے ميرے والد صاحب كى ملكيت ہے، اور وہى اسے چلاتے ہيں ؟
الحمد للہ:
اول:
مذكورہ طريقہ سے ڈش اور كيبل كا استعمال كرنا، اور حقہ نوشى كرنا، اور جوا كھيلنا اور قمار بازى، اور ايك دوسرے كو گندے الفاظ بولنا، اور بے پرد عورتيں ديكھنا، يہ سب كچھ حرام اشياء ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كا گناہ ہر اس شخص پر ہے جو اس كا خود مرتكب ہو، يا پھر اس ميں تعاون كرتا ہو، يا اسے ديكھ كر اس سے منع نہ كرے اور انہيں ايسا كرنے دے.
اور بلا شك و شبہ ان حرام اشياء كا ارتكاب كرنے كےليے كفيے كھولنا حرام ہے، اور ان اعمال كى بنا پر ، يا ايسا كرنے كى اجازت دينے سے اس كيفے كى جو آمدنى ہو گى وہ بھى حرام ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو اور اللہ تعالى سے ڈر كر تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے ﴾المآئدۃ ( 2 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور اللہ تعالى اپنى كتاب ميں تم پر اپنا يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ جب تم كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے يا اس كا مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى سب منافقوں اور تمام كافروں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے ﴾النساء ( 140 ).
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ تعالى:
﴿تو تم اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو جب تك وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں ﴾
يعنى كفر كے علاوہ دوسرى باتيں.
﴿ يقينا تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو ﴾:
تو اس سے يہ علم ہوا كہ گناہ و معاصى كے مرتكب افراد سے جب برائى ظاہر اور واضح ہو رہى ہو تو پھر ان سے اجتناب كرنا واجب ہے، كيونكہ جو ان سے اجتناب نہيں كريگا تو وہ ان كے اس فعل پر راضى ہے، اور كفر پر راضى ہونا بھى كفر ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ يقينا تم اس وقت انہى جيسے ہو ﴾.
تو جو شخص بھى ان كے ساتھ معصيت اور گناہ كى مجلس ميں بيٹھے اور وہ اس برائى سے انہيں منع نہ كرے تو گناہ ميں وہ بھى ان كے ساتھ برابر كا شريك ہے.
جب وہ معصيت كا ارتكاب كريں، اور معصيت و نافرمانى كى بات كريں تو انہيں اس سے منع كرنا واجب ہے، اور اگر وہ انہيں منع كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو پھر وہ وہاں سے اٹھ جائے تا كہ وہ بھى اس آيت كے تحت انہى لوگوں ميں شامل نہ ہو جائے " انتہى.
اور حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور يقينا جب اللہ سبحانہ وتعالى كوئى چيز كھانا حرام كرتے ہيں تو اس كى قيمت بھى حرام كرتے ہيں "
مسند احمد اور سنن ابو داود حديث نمبر ( 3026 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5107 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شطرنج اور لڈو وغيرہ كھيلنے كى حرمت كے متعلق آپ سوال نمبر ( 14095 ) اور ( 22305 ) كے جواب ميں ديكھيں.
اور يہ كھيل ہارنے والے كا جيتنے والے كو رقم دينا، يا ہارنے والے شخص كا كھانے پينے كے بل كى ادائيگى كرنا قمار بازى اور جوا ميں شامل ہوتى ہے، اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 20962 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
اگر آپ كے والد كى كمائى كا كوئى اور بھى ذريعہ ہو، يا پھر اس كيفے ميں وہ اشياء بھى ہوں جنہيں فروخت كرنا مباح و جائز ہے، مثلا چائے، قہوہ وغيرہ تو آپ كے والد كى كمائى كا مال مخلوط ہے جس ميں حلال اور حرام دونوں ہى ملے ہوئے ہيں، جب آپ ضرورتمند ہوں تو اس مال كو كھانے اور استعمال كرنے ميں آپ كے ليے كوئى حرج نہيں، ليكن ورع و تقوى يہى ہے كہ اس سے اجتناب كيا جائے.
حاشيۃ الدسوقى ميں لكھا ہے:
" آپ كے علم ميں رہے كہ جس كے مال كا اكثر حصہ حلال ہو اور اس ميں كم مقدار حرام كى ہو تو معتبر يہى ہے كہ اس كے ساتھ لين دين كرنا اور قرض لينا اور اس كے مال سے كھانا جائز ہے....
ليكن جس شخص كا زيادہ مال حرام ہو اور اس ميں حلال مال كى مقدار كم ہو تو پھر اس ميں معتبر يہى ہے كہ اس كے ساتھ لين دين كرنا، اور اس كے مال سے كھانا اور قرض كے معاملات كرنا مكروہ ہيں.
اور جس شخص كا سار مال ہى حرام ہو، اور وہ اس حرام ميں مستغرق ہو تو ايسے شخص سے لين دين اور معاملات نہيں كيے جائينگے، اور اس كے ساتھ مالى تصرف وغيرہ كرنے سے باز رہا جائيگا " انتہى.
ديكھيں: حاشيۃ الدسوقى ( 3 / 277 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر والد كى كمائى حرام ہو تو اسے وعظ و نصحيت كرنى واجب ہے، يا تو آپ خود اسے نصيحت كريں، اگر آپ خود ايسا كرنے كى استطاعت ركھتے ہوں، يا پھر اہل علم ميں سے كسى عالم دين سے تعاون حاصل كريں جو اسے نصيحت كرے، يا اس كے كسى دوست و احباب سے تعاون ليں ہو سكتا ہے وہ اسے كچھ سمجھا كر اسے اس حرام كمائى سے باز رہنے اور ترك كرنے پر راضى كر سكيں.
اور اگر ايسا نہ ہو سكے تو پھر آپ كے ليے بقدر ضرورت اس كے مال سے كھانا جائز ہے، اور اس حالت ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں ہوگا، ليكن آپ كو اس حالت ميں بھى اپنى ضرورت سے زيادہ مال نہيں لينا چاہيے، تا كہ حرام كمائى والے شخص كے مال سے كھانے كے جواز كا شبہ پيدا نہ ہو " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 452 ).
مزيد معلومات كے حصول كے ليے آپ سوال نمبر ( 45018 ) اور سوال نمبر ( 21701 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے والد كو ہدايت نصيب فرمائے، اور اس كى حالت كى اصلاح كرے، اور آپ كو رزق حلال نصيب فرما كر اس ميں بركت عطا كرے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ