بيٹى كا سالگرہ منانے سے انكار اور ماں كا اصرار
مجھے علم ہوا ہے كہ ميرى غير مسلم والدہ ميرى سالگرہ منانا چاہتى ہے اس سلسلہ ميں كيا حكم ہے، اور اگر جائز نہيں تو انكار كرنے كى صورت ميں والدہ كے ساتھ حسن سلوك كس طرح ہو سكتا ہے ؟
الحمد للہ:
اول:
اس تہوار جسے لوگ " سالگرہ كا تہوار " كہتے ہيں اس كے متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ہر وہ تہوار جسے عيد بنايا جائے اور وہ ہر ہفتہ ميں يا ہر سال تكرار سے آئے وہ مشروع نہيں يہ بدعت ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:
شارع نے بچے كى ولادت پر عقيقہ كرنا مشروع كيا ہے اور اس كے بعد كچھ نہيں، ان كا يہ تہوار بنا لينا جو ہر ہفتہ يا ہر سال ميں آئے اس كا معنى يہ ہوا كہ انہوں نے اسے اسلامى عيد اور تہوار كى مشابہ بنا ليا ہے، اور ايسا كرنا حرام ہے جائز نہيں اسلام ميں تين تہواروں اور عيدوں كے علاوہ كوئى نہيں يعنى عيد الفطر اور عيد الاضحى اور ہفتہ وار عيد جمعہ ہے.
يہ عادات ميں سے نہيں كيونكہ اس ميں تكرار ہے اسى ليے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ تشريف لائے تو مدينہ كے لوگ دو تہوار اور عيديں منايا كرتے تھے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ سبحانہ و تعالى نے ان دو تہواروں كے بدلے تمہيں دو بہتر اور اچھے تہوار ديے ہيں وہ عيد الفطر اور عيد الاضحى ہيں "
سنن نسائى حديث نمبر ( 1556 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1134 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 124 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حالانكہ يہ ان كے ہاں عادى امور ميں سے تھے " انتہى
منقول از: شرح كتاب التوحيد ( 1 / 382 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 1027 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
رہا يہ مسئلہ كہ آپ اپنى والدہ كے ساتھ كيسا معاملہ كريں ميرى رائے تو يہ ہے كہ آپ پورى صراحت اور وضاحت سے معاملہ كى حقيقت بيان كر ديں، انہيں بتائيں كہ اللہ تبارك و تعالى نے اس كا حكم نہيں ديا، اور دين اسلام اس سے منع كرتا ہے، اور اگر ايسا ہى ہے تو آپ يہ كام نہيں كر سكتيں.
آپ والدہ كو يہ بھى كہيں كہ اگر اللہ تعالى نے اس سے منع نہ كيا ہوتا تو ميں اس ميں خوشى محسوس كرتى اور آپ كا شكريہ بھى ليكن معاملہ ميرے اختيار ميں نہيں اور نہ ہى كسى اور كے اختيار ميں ہے، بلكہ يہ تو اللہ تعالى كے اختيار ميں ہے وہى فيصلہ كرتا ہے، اور ہم ـ مسلمان ـ پر اس كى تسليم كرنا ضرورى ہے ہمارے ليے اس ميں مناقشہ اور اعتراض كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ اللہ سبحانہ و تعالى حكيم و عليم كا حكم ہے.
آپ اپنى والدہ كو اچھى اور بہتر اسلوب اور طريقہ نرم رويہ سے بتائيں، اگر تو وہ مان جائيں اور اس كى قدر كريں تو اللہ كا شكر ادا كريں، وگرنہ آپ اس تقريب كے موقع پر گھر سے باہر رہنے كى كوشش كريں تا كہ آپ كو اس ميں شريك ہونے كے ليے تنگ نہ كيا جائے، يا پھر اپنے آپ كو كمزور كر ديں، آپ كى والدہ جو كچھ كر رہى ہے اس كى آپ ذمہ دار نہيں، اللہ كى رضا مخلوق كى رضا پر مقدم ہونى چاہيے.
اور آپ يقين كريں كہ اگر آپ نے آج اس كام كا شدت سے انكار كر ديا تو اميد ہے اللہ تعالى مستقبل ميں اپنے حكم سے آپ كى والدہ كو آپ پر راضى كر ديگا.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ