پھوپھى كى ديكھ بھال كرنے والے بھيتجھے كو پھوپھى كى طرف سے عطيہ دينے كا حكم

 

ميرى ايك پھوپھى ہے جو بوڑھى ہو چكى ہے اس كے پاس بہت مقدار ميں مال بھى ہے اور اسے باپ كى وراثت سے جائداد بھى ملى تھى، تقريبا پندرہ برس سے ميرے والد صاحب كى موافقت سے پھوپھى نے مجھے محكمہ ميں اپنے مال اور جائداد كا وكيل مقرر كر ركھا ہے، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ ميرى پھوپھى نے بہت ہى محفوظ زندگى بسر كى ہے، نہ تو وہ لكھنا جانتى ہے، اور نہ ہى پڑھ سكتى ہے، اور نہ ہى ميرے تعاون كے بغير اپنے معاملات سرانجام دے سكتى ہے.
ميں جتنے عرصہ اور مدت سے ان كا وكيل رہا ہوں وہ ميرے ساتھ اس طرح لين دين كرتى رہى ہے گويا كہ ميں ہى اس كا اكيلا بيٹا ہوں، دوسرے بھائيوں كے علاوہ صرف ميں ہى اپنى پھوپھى كے سارے معاملات اور زندگى مالى اور معاشى معاملات كى ديكھ بھال كرتا ہوں، ميرے باقى بارہ بھائى ہيں جو صرف پھوپھى كے پاس كبھى كبھار اور وہ بھى صرف دينى يا اجتعاعى تقريبات ميں ہى آتے اور اس سے صلہ رحمى كرتے ہيں.
ميرے والد صاحب فوت ہو گئے ہيں اور اب ميں اور ميرے بھائى ہى اپنى پھوپھى كے شرعى وارث بنتے ہيں، اس كے علاوہ كوئى اور وارث نہيں ميں نے اپنے دوسرے بھائيوں كے علم ميں لائے بغير ہى پھوپھى سے اس كى اكثر جائداد اپنے اور اپنى بہن اور ايك بھانجھے كے نام كرانے كى اجازت مانگى ہے اور وہ بھانجھا حقيقت ميں ميرى بيٹى كا خاوند يعنى ميرا داماد ہے، كيونكہ وہ ميرى پھوپھى كى ديكھ بھال ميں ميرا معاون رہا ہے، پھوپھى نے اس پر موافقت كرتے ہوئے جائداد ميرے اور ميرى بہن اور بھانجھے كے نام كر بھى دى ہے، ليكن بعد ميں بلآخر ميرے بھائيوں كو اس كا علم ہوگيا تو ان سب نے مجھے لعنت ملامت كرنا شروع كردى اور مجھ پر الزام لگانے لگے كہ ميں نے پھوپھى كو نقصان پہنچايا ہے، اور پھوپھى كا اپنے معاملات كى ديكھ بھال نہ كر سكنے كو اپنے ليے فرص اور موقع غنيمت جانتے ہوئے ميں نے يہ سب كچھ كيا ہے، اور اسے زندگى كے امور كا ادراك بھى نہيں ہونے ديا، اور اس كى املاك كى قيمت كا بھى علم نہيں ہونے ديا اور ميں نے اپنے نام وكالت نامہ كو غلط طور پر استعمال كيا ہے، اس كے علاوہ انہوں نے مجھ پر يہ الزام بھى عائد كيا ہے كہ ميں نے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى بھى مخالفت كى ہے.
تو ميرا سوال يہ ہے كہ آيا واقعى ہبہ كے متعلق ميں نے شرعى حكم كى مخالفت كى ہے، يہ علم ميں رہے كہ يہ سب كچھ پھوپھى كے علم اور اس كى موافقت كے ساتھ ہوا ہے ؟
اور كيا ميرے دوسرے بھائيوں كو اس ہبہ پر كوئى اعتراض كرنے كا حق حاصل ہے ؟
آپ سے گزارش ہے كہ مجھے كوئى ايسى نصيحت كريں جو مجھے اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كرنے سے باز ركھے، اگر ميں غلطى پر ہوں تو ميں اس كا تدارك اور تصحيح كر سكوں، اور وقت نكلنے سے قبل اس سے توبہ و استغفار بھى كر لوں

الحمد للہ:

جى ہاں علماء كرام كا اجماع ہے كہ بے ہوشى نواقض وضوء ميں شامل ہے چاہے تھوڑى سى بھى ہو.

اس ليے جو شخص بھى بےہوش ہوا اور اس كا شعور اور احساس جاتا رہا چاہے ايك سيكنڈ اور لحظہ ہى بےہوش ہو تو اس كا وضوء ٹوٹ جائيگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جنون يا بےہوشى يا نشہ يا عقل زائل كرنے والى دوسرى اشياء سے عقل زائل ہونے سے بالاجماع وضوء ٹوٹ جاتا ہے، چاہے كچھ دير كے ليے ہى عقل زائل ہو.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: علماء كرام كا اجماع ہے كہ بے ہونے والے شخص پر وضوء كرنا واجب ہے.

اور اس ليے بھى كہ ان كى حس سونے والے شخص سے زيادہ بعيد ہے اس كى دليل يہ ہے كہ انہيں متنبہ بھى كيا جائے تو انہيں پتہ نہيں چلتا، سوئے ہوئے شخص پر وضوء واجب ہونے ميں يہ تنبيہ ہے كہ بےہوش شخص پر وضوء كا وجوب سونے والے سے زيادہ تاكيدى ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 234 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" امت كا اس پر اجماع ہے كہ جنون اور بےہوشى سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، اس كے متعلق ابن منذر اور دوسروں نے اجماع نقل كيا ہے.

اور ہمارے اصحاب كا اس پر اتفاق ہے كہ جس شخص كى بھى بے ہوشى يا جنون يا بيمارى يا شراب نوشى يا نبيذ نوش كرنے يا كسى اور چيز سے، يا ضرورت كى بنا پر كوئى دوائى پينے سے يا كسى اور سبب سے اس كى عقل زائل ہو جائے تو اس كا وضوء ٹوٹ جائيگا....

ہمارے اصحاب كا كہنا ہے كہ: ابتدائى مستى نہيں بلكہ وہ نشہ وضوء توڑتا ہے جس كى بنا پر شعور اور احساس باقى نہ رہے، اور ہمارے اصحاب كہتے ہيں: اس ميں بيٹھے ہوئے جسے بٹھانا ممكن ہو وغيرہ ميں كوئى فرق نہيں، اور نہ ہى قليل اور كثير ميں فرق ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 25 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا بے ہوشى سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جى ہاں بے ہوشى سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے؛ كيونكہ بے ہوشى نيند سے زيادہ شديد ہے، اور اگر نيند ميں اتنا غرق ہو كہ اگر اس سے كچھ خارج ہو جائے تو اسے پتہ ہى نہ چلے تو اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، ليكن اگر تھوڑى سى نيند ہو كہ اگر سوئے شخص كا وضوء ٹوٹ جائيگا تو وہ خود اسے محسوس كرلے، تو يہ نيند وضوء نہيں توڑےگى، چاہے وہ ليٹا ہوا ہو يا پھر سہارا لے كر بيٹھا ہو، يا بغير سہارا كے بيٹھا ہو، يا كسى بھى حالت ميں ہو، جب اس كا وضوء ٹوٹے اور اسے خود ہى اس كا احساس ہو جائے تو يہ نيند وضوء نہيں توڑےگى، تو پھر بے ہوشى تو اس سے بھى زيادہ شديد ہے اس ليے جب كوئى انسان بے ہوش ہو جائے تو اس كے ليے وضوء كرنا واجب ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 200 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كچھ لحظات بے ہوش يا عقل غائب ہونے والے شخص كے وضوء كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اس ميں تفصيل ہے:

اگر تو قليل اور تھوڑى سى ہو كہ اس كے ہوش و حواس قائم ہوں اور وضوء ٹوٹنے كا احساس ہوتا ہو تو يہ نقصان دہ نہيں، اونگھنے والے شخص كى طرح جو كہ اپنى نيند ميں غرق نہ ہوا ہو، بلكہ وہ حركت كو سنتا ہو تو يہ اسے كوئى ضرر نہيں ديگى حتى كہ اسے علم ہو كہ اس سے كچھ خارج ہوا ہے.

اسى طرح اگر بےہوشى احساس ميں مانع نہ ہو، ليكن اگر وہ احساس ميں مانع ہو اور اس سے خارج ہونے والى چيز كے خارج ہونے كے شعور كو روكتى ہو مثلا نشئى، يا ايسى بيمارى ميں مبتلا شخص جس كا شعور اور احساس ختم ہو جائے اور وہ قومہ ميں چلا جائے تو بے ہوش شخص كى طرح اس كا وضوء ٹوٹ جائيگا، اور اسى طرح مرگى كا دورہ والے لوگ بھى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 10 / 145 ).

واللہ اعلم .

.

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ