برے اخلاق سے مسلمان کس طرح چھٹکارا حاصل کرے اور کس طرح اچھا اخلاق اپنائے؟
سوال
میں بہت بد اخلاق ہوں، میں اپنی والدہ کی نافرمانی کرتی ہوں، اور انہیں ہمیشہ غصہ دلاتی رہتی ہوں، تاہم کبھی کبھار میرا اخلاق اچھا بھی ہوتا ہے، لیکن زیادہ تر اوقات برا رہتا ہے، تو اب سوال یہ ہے کہ میں اپنے اخلاق کو کس طرح اچھا بنا سکتی ہوں؟ اور کون سی ایسی چیزیں ہیں جو میرے لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور حسن اخلاق کے لیے معاون ہوں؟ اور اگر میرا اخلاق اچھا نہ ہوا تو کیا مجھے اس پر سزا ملے گی؟ یا اخلاق حسنہ فرض نہیں ہوتے اس لیے اس کے نہ ہونے کی صورت میں سزا نہیں ملے گی؟ ساتھ میں یہ بھی ہے کہ میں جس وقت اپنے اخلاق کو اچھا رکھنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں ریا کاری کر رہی ہوں، اور شرک اصغر میں مبتلا ہوں، تو اخلاق حسنہ پیش کرتے ہوئے میں کس طرح ثابت قدم رہ سکتی ہوں اور للہیت کیسے پیدا کر سکتی ہوں؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
اول:
حسن اخلاق قیامت کے دن اعمال کے میزان میں سب سے زیادہ وزنی چیز ہو گی، اور قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ترین وہی لوگ ہوں گے جو اچھے اخلاق کے مالک ہوں گے۔
جیسے کہ سنن ترمذی: (2018) میں روایت ہے جسے امام ترمذی نے حسن قرار دیا ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے قریب ترین نشست پانے والا وہ ہو گا جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو گا۔) اس حدیث کو صحیح ترمذی میں البانیؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً تم میں سے بہتر وہی ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6035) اور مسلم : (2321) نے روایت کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث مبارکہ میں حسن اخلاق اپنانے کی ترغیب کے ساتھ اچھے اخلاق والے شخص کی فضیلت بھی ہے، نیز حسن اخلاق انبیائے کرام اور اللہ تعالی کے ولیوں کی خوبی ہے۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: حسن اخلاق کی ماہیت : دوسروں کے کام آنا، کسی کو اذیت نہ دینا اور خندہ پیشانی سے ملنا ہے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں: لوگوں میں گھل مل کر ان کی بھلائی کرنا، خوشیاں بانٹنا، ان کے بارے میں فکر مند رہنا، انہیں برداشت کرنا، آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بردباری سے پیش آنا، لوگوں کی اذیت پر صبر کرنا، لوگوں پر تکبر اور زبان درازی کرنے سے بچنا، غصہ اور سخت لہجے سے دور رہنا نیز ان کے ساتھ درگزر سے پیش آنے کا نام حسن اخلاق ہے۔" ختم شد
دوم:
والدین کے ساتھ بد سلوکی کبیرہ گناہوں میں شامل ہے، نیز والدین کے ساتھ بد سلوکی کرنے والا شخص دنیا و آخرت میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ ہر مسلمان مرد اور عورت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ مکمل حسن سلوک رکھے، اور ہر ممکنہ صورت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی کوشش کرے، والدین کو غضب ناک کرنے، ان کی نافرمانی اور مخالفت کرنے سے دور رہے۔
سوم:
اخلاق کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، جو کہ درج ذیل وسائل اور ذرائع سے ممکن ہے:
- حسن اخلاق کے فضائل اور اچھے اخلاق پر ملنے والے دنیا و آخرت کے بدلے کو پہچانیں۔
- بد اخلاقی کے برے انجام اور بد اخلاقی پر مرتب ہونے والی سزا اور برے انجام سے آشنا ہوں۔
- سلف صالحین کی زندگی اور حالات کا مطالعہ کریں۔
- غصہ نہ کرے، صبر سے کام لیں، مزاج میں ٹھہراؤ پید کریں اور جلد بازی سے کام نہ لیں۔
- اچھے اخلاق کے مالک افراد کے ساتھ وقت گزاریں، اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہیں۔
- اپنے آپ پر جبر کرتے ہوئے حسن اخلاق کا عادی بنائیں اور پھر اسی پر ڈٹ جائیں، جیسے کہ ایک شاعر نے کہا ہے:
{تكَرَّمْ لتَعْتادَ الجَمِيلَ ، ولنْ تَرَى ... أَخَا كَرَمٍ إِلَّا بأَنْ يتَكَرَّمَا}
ترجمہ: حسن اخلاق اپنائیں تا کہ حسن الخلق آپ کی عادت بن جائے؛ آپ حسن اخلاق کے مالک اسے عملی طور پر اپنانے سے ہی بن سکتے ہیں۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا کریں کہ اللہ تعالی آپ کا اخلاق اچھا کر دے، اور اچھے اخلاق کے لیے آپ کی مدد بھی فرمائے، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنی دعا میں کہا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِي ، فَأَحْسِنْ خُلُقِي یعنی: یا اللہ! تو نے میری جسمانی ساخت بہت اچھی بنائی، تو میرا اخلاق بھی بہت اچھا بنا دے۔
اس دعا کو مسند احمد: (24392) نے روایت کیا ہے اور مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، نیز البانیؒ نے بھی اسے صحیح الجامع: (1307) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اور اگر کبھی مسلمان پھسل کر بد اخلاقی کا مرتکب ہو جائے تو فوری طور پر معذرت کرے، اور جو خرابی پیدا ہوئی ہے اس کی درستگی عمل میں لائے، اور آئندہ حسن اخلاق پر کار بند رہنے کی کوشش کرے۔
مسلمان جس وقت اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے یہ در حقیقت اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل ، اور رضائے الہی کی جستجو ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور اقتدا بھی ہوتی ہے۔ حسن اخلاق کا معاملہ بھی دیگر عبادات جیسا ہے چنانچہ اپنے اخلاق کو اس لیے بہتر نہ کرے کہ لوگ اس کی تعریف کریں؛ کیونکہ ایسے کرنے سے انسان اپنا ثواب کھو بیٹھتا ہے اور ریا کاری پر سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
جس طرح مسلمان اس بات کی بھی بھر پور کوشش کرتا ہے کہ اپنی ہر عبادت اخلاص کے ساتھ بجا لائے، اسی طرح حسن اخلاق کے متعلق بھی کوشش کرے، تو ہمیشہ اپنی توجہ اللہ تعالی کے احکامات پر رکھے ، قیامت کے دن کا حساب، اعمال کا وزن، جنت اور جہنم ذہن نشین رکھے، یہ بات واضح طور پر سمجھ لے کہ لوگ اسے کچھ بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، آخرت کی یاد دہانی مسلمان کے لیے للہیت اور اخلاص کے لیے بہت زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے۔
چہارم:
والدین کے ساتھ حسن سلوک کے لیے معاون امور میں درج ذیل چیزیں بھی شامل ہیں:
- والدین کے حقوق اور ان کی فضیلت پہچانیں، نیز یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ والدین نے آپ کی کیسے مشقت برداشت کرتے ہوئے تربیت کی، بچوں کی آسودہ زندگی کے لیے والدین کیا کیا تکالیف اٹھاتے ہیں؟
- والدین کے ساتھ حسن سلوک پر ابھارنے والی کتاب و سنت کی نصوص پر غور و فکر کریں، اسی طرح والدین کی نافرمانی سے خبردار کرنے والی نصوص پر بھی توجہ کریں، پھر والدین کی نافرمانی کی وجہ سے دنیا و آخرت میں رونما ہونے والے انجام کے متعلق بھی سوچ بچار کریں۔
- یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے آپ کی اولاد بھی آپ کے ساتھ حسن سلوک برتے گی، اور والدین کی نافرمانی کی وجہ سے آپ کی اولاد بھی آپ کے ساتھ بد سلوکی کرے گی۔
- سلف صالحین کی زندگی کا مطالعہ کریں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کیسے پیش آتے تھے؟
- والدین کے ساتھ حسن سلوک پر ترغیب اور نافرمانی سے خبردار کرنے والی کتابوں کا مطالعہ کریں، اسی طرح ایسے دینی اور اسلامی خطابات سنیں جن میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔
- تحائف کا تبادلہ جاری رکھنا، اچھے انداز سے بات کرنا، خندہ پیشانی سے ملنا، کثرت سے دعائیں کرنا، اور والدین کے لیے اچھے کلمات زبان پر لانا حسن سلوک کے لیے نہایت ہی معاون ذرائع ہیں۔
واللہ اعلم
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ