زنا کے مرتکب کواس کے ضمیر کی ملامت اور اس بچے سے چھٹکارا

میں امریکا کا رہائشی اورغیرشادی شدہ مسلمان ہوں ، میں نے ایک ہی لڑکی سے کئي ایک بار زنا کا ارتکاب کیا ہے ، اوراب وہ حاملہ ہے میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میں اس سے شادی کرسکتا ہوں تا کہ مشکل کا حل نکل سکے ( یعنی اس ذلت پر پردہ ڈال سکوں ) اوربچہ بھی والدحاصل کرسکے جواسے اپنا نام دے ۔
میں واقعتا افضل یہ سمجھتا ہوں کہ وہ عورت حمل سے چھٹکارا حاصل کرلے ، لیکن افسوس کے ساتھ میری یہ کوشش ہے کہ وہ اسقاط پر راضی ہوجاۓ لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ آیا کہيں یہ قتل توشمار نہیں ہوگا ، اوراگرواقعی یہ قتل ہے تومیں اس کے ارتکاب سے گناہ محسوس کرونگا ۔
میرے خیال میں اس وقت تقریبا بچہ چھٹے یا آٹھویں ہفتہ میں ہے ، میں آپ کے تعاون کا بہت زيادہ خصوصا اس مسئلہ میں زیادہ محتاج ہوں آپ جتنی جلدی ہوسکے میرا تعاون کریں ؟

الحمد للہ
اول :

میرے مسلمان بھائي اللہ تعالی آپ کواپنے ایمان چھن جانے کی تکلیف پر صبر سے نوازے جسے آپ نے زنا کرتے وقت کھودیا تھا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :

( زانی جب زنا کررہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا ، اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا ، اورچوری کے وقت چوربھی مومن نہیں رہتا ، اورنہ ہی چھیننے اورلوٹنے والا لوٹتے وقت مومن ہوتا ہے جس لوٹننے کی بنا پرلوگ اس کی طرف نظریں اٹھا کردیکھتے ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2475 ) ۔

کیا آپ کے سامنےکتاب اللہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان نہیں گزرا:

{ اورزنا کے قریب بھی نہ پھٹکو بلاشبہ یہ فحش کام اور بہت ہی برا راستہ ہے } الاسراء ( 32 ) ۔

کیا آپ جانتے نہيں کہ آپ جہاں بھی ہوں اللہ سبحانہ وتعالی آپ کودیکھ رہا ہے ۔۔۔۔ اوراگر بات کریں تو وہ سن رہا ہے ؟

کیا آپ اپنے اوپر اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں کویادنہیں کرتے ۔۔ جب آپ بیمار ہوں تووہی شفا دینے والا ہے ، اورجب بھوک لگے تووہی کھلانے والا ہے ، وہی ہے جوپیاس لگنے پر آپ کوپانی پلاتا ہے ، اوراس نے آپ کواس نعمت اسلام سے نوازا ہے جولوگوں پر سب سے عظیم نعمت ہے ، توکیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟

میرے بھائي اپنے آپ میں غور فکر کرو ، کس کی بادشاہی میں زندگی بسر کررہے ہو ؟ ۔۔۔ کس کا رزق کھاتے ہو ؟ ۔۔۔ کس کے حکم سے زندہ ہو؟ ۔۔۔

کیا بادشاہی اللہ تعالی کی نہيں ؟ کیا رزق اللہ تعالی کا نہیں ؟ ۔۔۔ کیا اللہ تعالی کا حکم نہيں ؟ ۔۔۔ توپھر آپ اللہ تعالی کی نافرمانی کس طرح کررہے ہيں ؟

شائد کہ آپ اس ‏عظیم حدیث سے بھی غافل ہیں جو کہ حدیث معراج کے نام سے پہچانی جاتی ہے اورجس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مذکور ہے کہ :

( پھر ہم آگے چلے توایک تنور جیسی عمارت کے پاس پہنچے ، راوی کہتے ہيں کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس تنور میں سے شور وغوغا اورآوازيں سنائي دے رہی تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم نے اس تنور میں جھانکا تواندر مرد وعورتیں سب ننگے تھے ، اوران کے نیچے سے آگ کے شعلے رہے تھے اورجب وہ شعلے آتے وہ لوگ شوروغوغا اورآہ و بکا کرتے میں نے ان ( فرشتوں ) سے سوال کیا یہ کون ہيں ؟

انہوں نے مجھے جواب دیا چليں آگے چلیں ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ میں آج رات بہت عجیب چيزیں دیکھی ہيں تویہ سب کچھ کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہيں :

ان فرشتوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کوسب کچھ بتائيں گے ۔۔۔۔ اوروہ مرد اور عورتیں جوتنورمیں بے لباس تھے وہ سب زانی مرد وعورتیں تھیں ) صحیح بخاری باب اثم الزناۃ حدیث نمبر ( 7047 ) ۔

اس لیے میرے بھائی آپ جتنی جلدی ہوسکے موت آنے سے قبل ہی سچی اورخالص توبہ کرلیں ، اس لیے کہ مغرب کی جانب سے سورج طلوع ہونے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، یا پھرجب روح حلق تک آجاۓ اورغرغرہ شروع ہونے تک توبہ ہوسکتی ہے ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی بندے کی توبہ سے بہت زيادہ خوش ہوتا ہے اوراس کے گناہوں اورمعصیت کونیکیوں میں بدل ڈالتا ہے ۔

اللہ تعالی نے اسی کے بارہ میں کچھ اس طرح فرمایا جس کا ترجہ ہے :

{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے } الفرقان ( 68 – 71 ) ۔

دوم :

آپ کا یہ کہنا کہ کیا مجھ پر ضروری ہے کہ میں اس عورت سے شادی کرلوں ؟

اس مسئلہ ( زانی کا زانیہ سے نکاح ) کا جواب یہ ہے کہ :

زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اورنہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کرسکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں توان کی شادی ہوسکتی ہے ۔

اس لیے آپ اس عورت سے نکاح نہیں کرسکتے اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اوراگر مسلمان بھی ہوپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اورنہ ہی اس عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ آپ کوبطور خاوند قبول کرے اس لیے کہ آپ زانی ہيں ۔

فرمان باری تعالی کچھ اس طرح ہے :

{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتا ، اورزانیہ عورت بھی زانی یا پھرمشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔

اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔

لھذا آپ دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جوفحش کام آپ سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کثرت کے ساتھ کریں ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول کرے اورآپ کے سب گناہوں کونیکیوں سے بدل ڈالے اسی کے بارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے } الفرقان ( 68 – 71 ) ۔

اورتوبہ کے بعد اگر آپ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تونکاح سے قبل آپ پرضروری اورواجب ہے کہ اس کا ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کریں ، اوراگر حمل ظاہر ہوجاۓ توپھر آپ حدیث پرعمل کرتے ہوۓ اس حالت میں اس سے نکاح نہیں کرسکتے جب وضع حمل ہوجاۓ توآپ نکاح کرسکتے ہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ انسان کسی دوسرے کی کھیتی کوسیراب کرتا پھرے ۔ ا ھـ

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ بحوالہ مجلۃ البحوث الاسلامیۃ ( 9 / 72 ) ۔

سوم :

آپ کا یہ کہنا کہ : " تا کہ بچہ والد کوحاصل کرسکے جو اسے اپنانام اورپہچان دے سکے " ۔

مسئلہ یہ ہے کہ ولد زنا کس سے منسوب ہوگا ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ :

جمہور علماء کرام کے نزدیک ولد زنا کوزانی کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( بچہ بستر والے ( یعنی خاوند) کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) دیکھیں المغنی لابن قدامۃ مقدسی ( 7 / 129 ) ۔

چہارم :

آپ کا یہ کہنا کہ : " میں بہتر سمجھتا ہوں کہ عورت اس حمل سے چھٹکارا حاصل کرلے "

یہ مسئلہ اسقاط حمل ہے اوراس کے حکم میں ہم کبار علماء کمیٹی کا فیصلہ نقل کرتے ہیں یہ فیصلہ نمبر 140 ( 20 / 6 / 1407 ھـ ) کوہوا :

1 - حمل کے مختلف مراحل میں اسقاط جا‏ئز نہيں ، لیکن اگر کوئي شرعی مبرر ہواوروہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوۓ ۔

2 - اگر حمل پہلے مرحلہ یعنی چالیس یوم کی مدت تک کا ہواور اس کے اسقاط میں کوئي شرعی مصلحت یا پھرکوئي ضرر لاحق ہونے کا خدشہ ہوتو اسقاط حمل جائز ہے ۔

لیکن اس مدت میں صرف اولاد کی تربیت میں مشقت کے ڈرسے یا پھر ان کی تعلیم اورمعیشت و رزق کی تنگی یا ان کے مستقبل یا والدین کے پاس موجود بچے ہی کافی ہونے کی بنا پر اسقاط کرایا جاۓ تواس حالت میں جائز نہیں ۔

3 - جب حمل خون کا لوتھڑا یا پھر گوشت کی شکل اختیار کرچکا ہو اسقاط حمل جائزنہيں لیکن اگر اس کے سپیشلسٹ اورتجربہ کار ڈاکٹروں کا میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ اس حمل کا رہنا ماں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اوراگریہ حمل ساقط نہ کیا گیا توماں کی ھلاکت ہوجاۓ گی تواس حالت میں اسقاط جائز ہے لیکن اس حالت میں بھی اسقاط سے قبل خطرات کی تلافی کے لیے سب وسائل بروۓ کار لانے ضروری ہیں اگر اس میں ناکام ہوں توپھر اسقاط کرانا جائز ہے ۔

تیسرے مرحلہ اورحمل کی مدت چارمہینے مکمل ہونے کے بعد آپ کے لیے اسقاط حمل جائز نہیں لیکن اگرتجربہ کار اورسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ بچے کا ماں کے پیٹ میں رہنا اس کی موت کا سبب بن سکتا ہے ۔

لیکن اس حالت میں بھی اسقاط سے قبل ماں کی زندگی کے لیے تمام وسائل کوبروۓ کار لاۓ جانے کے بعد اگر اسقاط کی ضرورت پیش آۓ توپھر جائز ہے ، اس کی اجازت بھی اس لیے دی گئي ہے کہ دو ضرورں میں سے بڑے ضرورسے بچنے اوردومصلحتوں میں سے بڑی مصلحت حاصل کی جاسکے ۔ ا ھـ

الفتاوی الجامعۃ ( 3 / 1055 ) سے نقل کیا گیا ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے سلامتی وعافیت کے طلبگار ہیں اوردعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری توبہ قبول فرماۓ ۔

اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پررحمتیں نازل فرماۓ آمین یا رب العالیمن ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ