معین تعداد والے اذکار کو سارے وقت میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؟

سوال

کیا اذکار کو عمومی طور پر اور { لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ } کو خصوصی طور پر کسی مخصوص شکل میں تقسیم کرنا جائز ہے؟ مطلب یہ ہے کہ: کیا الگ الگ مجلسوں میں اس ذکر کو پڑھنے کی وجہ سے حدیث میں مذکور اجر ملے گا؟ جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص { لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ } [ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ، بادشاہی اسی کی ہے ۔ اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔] سو مرتبہ پڑھے گا : تو یہ اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ہو جائے گا ۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس سے مٹا دی جائیں گی ۔ اس روز دن بھر یہ دعا شیطان سے اس کی حفاظت کا باعث بنے گی۔ یہاں تک کہ شام ہو جائے اور کوئی شخص اس سے بہتر عمل لے کر نہ آئے گا ، مگر جو اس سے بھی زیادہ یہ کلمہ پڑھ لے ۔
اب کوئی شخص اس ذکر کو پورے دن پر تقسیم کر دے، مثلاً: فجر اور عصر کے بعد 50، 50 بار ۔ یا پھر ہر فرض کے بعد 20 مرتبہ تو کیا یہ جائز ہے؟ یا ایک ہی مجلس میں ان اذکار کو پڑھنا واجب ہے؟ یہاں مقصد کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا نہیں ہے بلکہ اس ذکر کی فضیلت حاصل کرنا اور اس کی پابندی کرنا مقصود ہے، کیونکہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس ذکر کو 30 مرتبہ پڑھتا ہے اور پھر کسی بھی سبب کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتا اور 100 مرتبہ پڑھنا بھول جاتا ہے، تو اگر کوئی شخص ہر نماز کے بعد اسے 20 بار پڑھنے کا پروگرام بنا لے اس لیے نہیں کہ یہ نماز کے اذکار میں شامل ہے بلکہ اس لیے کہ دن میں 100 بار پڑھ سکے ، یہ بھی ہمارا مقصد ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر اس ذکر کو 100 بار پڑھ سکیں یہ نہیں کہ کبھی پڑھ لیا اور کبھی نہ پڑھا۔ اللہ تعالی راہ راست پر چلنے کی توفیق دینے والا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جن اذکار کو صبح اور شام کے اذکار کہا جاتا ہے انہیں ممکن ہے کہ ذکر کے سارے وقت میں پڑھا جائے یعنی دن کے مکمل دونوں حصوں میں ، چنانچہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی مجلس میں بیٹھ کر یہ ذکر کریں، کچھ لوگ ایک ہی مجلس میں اذکار پڑھنا لازمی سمجھتے ہیں، اور ایسے اذکار جن کے اجر و ثواب میں پڑھنے والے کے لیے تحفظ کی ضمانت ہے انہیں دیگر اذکار سے پہلے پڑھے، ہماری یہ بات ایسے اذکار کے متعلق ہے جنہیں متعدد بار نہیں صرف ایک بار پڑھنا ہوتا ہے۔

دوم:

جن اذکار کو مخصوص تعداد میں پڑھا جاتا ہے ان کی تعداد میں اجر و ثواب کی امید رکھنے والے کے لیے رد و بدل کرنا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی کرتا ہے تو وہ مسنون طریقے کی مخالفت کر رہا ہے اور اجر سے محروم ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس سے یہ استنباط کیا گیا ہے کہ اذکار کی مخصوص تعداد کا خیال رکھنا مطلوب ہے، وگرنہ یہ کہنا بھی ممکن تھا کہ اس ذکر کے ساتھ 33 بار لا الہ الا اللہ کا اضافہ بھی کر دو، اسی لیے بعض اہل علم کہا کرتے تھے کہ ایسے اذکار جن کی تعداد مخصوص ہے جیسے کہ نماز کے بعد کے اذکار کو مخصوص تعداد میں پڑھنا ہوتا ہے تو کوئی ان کی تعداد میں اضافہ کر دے تو اسے وہ مخصوص اجر نہیں ملے گا؛ کیونکہ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ مخصوص عدد کی خصوصیت اور حکمت ہے جو کہ اس عدد سے تجاوز کرنے پر فوت ہو جاتی ہے۔
" فتح الباری" ( 2 / 330 )

اس موقف کی مخالفت کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ شخص ثواب سے محروم نہیں ہو گا اور زائد ذکر کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ وہ حکم عدولی نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کی نیت ہے کہ حکم کی تعمیل کے بعد اس ذکر کو نفلی طور پر پڑھے، منصوص اجر سے بڑھ کر حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ یہی توجیہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے استاد عراقی رحمہ اللہ کے موقف کی سابقہ مقام پر بیان کی ہے۔

سوم:

سوال کے متعلق یہ ہے کہ: دن کے دونوں حصوں میں کہے جانے والے اذکار میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں پوری صبح اور پوری شام میں تقسیم کر کے پڑھا جا سکتا ہے اس کے لیے نہ تو کسی تعداد کو مخصوص کیا جائے اور نہ ہی کسی عمل سے پہلے یا بعد میں اسے معین کیا جائے، بلکہ سارے وقت میں جیسے فرصت ہو پڑھ لے اس کے لیے مخصوص کیفیت اپنانے کی بھی ضرورت نہیں ہے، اس میں افضل یہ ہے کہ ایک وقت میں بیٹھ کر ذکر کی تعداد مکمل کرے تا کہ شمار کرنے میں بھی آسانی ہو اور بھولنے کا خدشہ بھی نہ ہو، تاہم جواز کی حد تک یہ ٹھیک ہے کہ تسلسل کے ساتھ ایک ہی مجلس میں پڑھنا لازم نہیں ہے، ہم نے جو موقف ذکر کیا ہے یہی درج ذیل حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص سو مرتبہ ایک دن میں کہے:{ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ} تو اس کے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ ) اس حدیث کو امام بخاری: (6042) اور مسلم : (2691) نے روایت کیا ہے۔

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث کے اطلاق سے یہی مفہوم ظاہر ہوتا ہے کہ ایک دن میں مذکورہ ذکر کہنے والے کو مذکورہ اجر و ثواب مل جاتا ہے، چاہے وہ تسلسل کے ساتھ ایک ہی مجلس میں پڑھے یا الگ الگ مجالس میں پڑھے، کچھ حصہ دن کے آغاز میں پڑھے یا کچھ آخر میں۔ تاہم افضل یہی ہے کہ دن کے آغاز میں تسلسل کے ساتھ پڑھ لے تا کہ اسے پورے دن میں تحفظ حاصل ہو۔" ختم شد
" شرح مسلم " ( 17 / 17 )

اسی طرح علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث مبارکہ میں لفظ یوم آیا ہے، اور اس کے بارے میں طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب لفظ یوم مطلق ہے اور یہ نہیں بتلایا گیا کہ کس وقت میں تو پھر اسے کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہیں کیا جائے گا۔" ختم شد
" عمدة القاری شرح صحيح البخاری " ( 23 / 25 )

خلاصہ:

افضل یہی ہے کہ مذکورہ تعداد میں ذکر کو ایک ہی مجلس میں پڑھ لے، اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر جس قدر ہو سکے جب فرصت ہو پڑھ لے، لیکن کسی قسم کی قید نہ لگائے کہ ہر نماز کے بعد مخصوص تعداد میں پڑھے۔

واللہ اعلم

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ