مختلف ممالك ميں گاڑى ڈرائيو كرنے كے حكم ميں اختلاف
اسلامى ممالك كى حدود بہت ہيں، ہم ديكھتے ہيں كہ ايك ملك كا لباس، عادات، اور رواج دوسرے ملك سے بہت مختلف ہيں، مثلا بعض ممالك ميں ہمارى مسلمان بہنيں نقاب اور پردہ كا اہتمام كرتى ہيں، كيونكہ وہ وہ اس فتوى پر عمل كرتى ہيں كہ چہرے كا پردہ اور نقاپ اوڑھنا واجب ہے، ليكن دوسرے اسلامى ممالك ميں يہ عام نہيں، اور وہاں يہ رائے پائى جاتى ہے كہ نقاب واجب نہيں بلكہ مستحب ہے.
اور اسى طرح عورت كے ليے گاڑى چلانے كے متعلق بھى بعض ممالك ميں علماء نے حرمت كا فتوى جارى كيا ہے، كيونكہ اگر اس كى اجازت دے دى جائے تو اس سے بہت سى خرابياں اور نقصانات پيدا ہونگے، حالانكہ دوسرے ممالك ميں عورت كو گاڑى چلانے كى اجازت اور ايك عام چيز سمجھا جاتا ہے، اور اسے دسيوں برس ہو چكے ہيں.
تو احكام ميں نرمى كس حد تك ہے، اور كيا جو كچھ ہو رہا ہے وہ صحيح ہے، ميرا مقصد يہ ہے كہ كچھ ممالك ميں يہ واجب اور ضرورى بن چكا ہے، اور كچھ علاقوں ميں يہ مستحب سمجھا جاتا ہے ؟
الحمد للہ:
شرعى احكام دو قسم كے ہيں:
پہلى قسم:
جس حكم پر صحيح دلائل دلالت كرتے ہيں: قطع نظر اس كے كہ عادات اور رواج مختلف ہوں، اور اس كے نتيجہ ميں جو خرابياں اور مصلحت پيدا ہوتى ہيں.
تو يہ حكم ثابت ہے، ايك جگہ سے دوسرى جگہ اور ايك شخص سے دوسرے شخص ميں اس كا كوئى اختلاف نہيں ہوتا، ليكن اگر انسان مضطر اور مجبور ہو، يا پھر مريض يا معذور ہو تو پھر اس كى حالت كے مطابق شريعت ميں جو نرمى آئى ہے وہى نرمى مد نظر ركھى جائيگى.
اس نوع اور قسم ميں نماز پنجگانہ، اور رمضان كے روزے، اور امر بالمعروف اور نہى عن المنكر، اور طلب علم ... الخ شامل ہيں.
اور اس قسم ميں ہى مسلمان عورت كا سارا بدن چھپا كر ركھنا جس ميں اس كا چہرہ اور ہاتھ بھى شامل ہيں، تو يہ حكم واجب ہے، اور ايك جگہ اور علاقے سے دوسرے علاقہ كے اعتبار سے اس ميں كوئى اختلاف نہيں يہ حكم ايك ہى رہےگا.
اس كے دلائل سوال نمبر ( 21134 ) اور ( 13647 ) كے جوابات ميں بيان ہو چكے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوسرى قسم:
وہ احكام جو كسى معين سبب پر مبنى ہيں، يا اس كى حرمت، يا اباحت يا وجوب كا حكم اس كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى خرابيوں يا مصلحت پر مبنى ہو، اور اس حكم كے ثابت ہونے پر كوئى شرعى دليل نہ ملتى ہو، تو ہو سكتا ہے عورت كے ليے گاڑى چلانے كا حكم اس قسم سے تعلق ركھے.
اس كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى خرابيوں اور نقصانات كى بنا پر علماء كرام نے اس كى حرمت كا فتوى ديا ہے.
يہ تو مكمل طور پر حرمين شريفين ميں فٹ آتا ہے، ليكن اس كے علاوہ باقى ممالك اور علاقوں ميں وہاں كے ثقہ علماء كرام سے رجوع كيا جائے، كيونكہ اپنے ممالك اور علاقوں كے احوال كو وہ بخوبى جانتے ہيں.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كى ڈرائيونگ كے متعلق " الجزيرہ " اخبار ميں لوگوں كى كلام اور بات چيت بہت بڑھ گئى ہے، اور يہ معلوم ہے كہ عورت كے گاڑى ڈرائيو كرنے ميں بہت سارى خرابياں اور نقصانات ہيں جو اس كى دعوت دينے والوں پر بھى مخفى نہيں، ان خرابيوں ميں عورت كے ساتھ حرام كردہ خلوت، اور بے پردگى بھى شامل ہے، اور اس كے علاوہ ٹريفك پوليس كے مردوں كے ساتھ اختلاط اور ميل جول بھى، اور اسى طرح بہت سارے ممنوعہ كاموں كا ارتكاب جس كى بنا پر يہ امور حرام كيے گئے ہيں وہ بھى شامل ہيں.
شريعت مطہرہ نے حرام كام كى طرف لے جانے والے وسائل اور ذرائع بھى حرام كيے ہيں، اور انہيں حرام شمار كيا ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں اور مومنوں كى عورتوں كو گھروں ميں ٹك كر رہنے اور باہر نہ نكلنے اور پردہ كرنے، اور غير مردوں كے سامنے زيب و زينت كو ظاہر كرنے سے منع كيا ہے، كيونكہ يہ سب كچھ معاشرے كو فحاشى اور بے حيائى كى طرف لے جاتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور تم اپنے گھروں ميں ٹكى رہو، اور پہلى جاہليت كى بےپردگى مت كرو، اور نماز كى پابندى كرتى رہو، اور زكاۃ كى ادائيگى كيا كرو، اور اللہ اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى كرتى رہو ﴾الاحزاب ( 33 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
﴿ اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں كو كہہ دو كہ وہ اپنى اوڑھنياں اوڑھ كر ركھيں، يہ اس كے زيادہ قريب ہے كہ وہ پہچانى جائيں اور انہيں اذيت نہ دى جائے﴾ الاحزاب ( 59 ).
اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:
﴿ اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديں كہ وہ اپنى نگاہيں نيچى ركھيں، اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زيبائش كو ظاہر نہ كريں مگر وہ جو اس ميں سے ظاہر ہے، اور چاہيے كہ وہ اپنى اوڑھنياں اپنے سينوں پر لٹكا كر ركھيں، اور اپنے خاوندوں، يا اپنے خاوندوں كے والد، يا اپنے بيٹوں، يا اپنے خاوند كے بيٹوں، يا اپنے بھائيوں، يا اپنے بھتيجوں، يا بھانجوں يا ان كى عورتوں، يا اپنى لونڈيوں يا اپنى لونڈيوں، يا جن مردوں كو نكاح كى خواہش نہيں، يا ان بچوں سے جو عورتوں كى پردہ والى اشياء كو نہيں جانتے ان سے اپنى زينت والى جگہيں چھپا كر ركھيں، اور وہ اپنے پاؤں زمين پر مت ماريں تا كہ ان كى پوشيدہ زينت كا علم نہ ہو، اور تم سب اللہ تعالى كى جانب توبہ كرو اے مومنو، تا كہ تم كامياب ہو سكو ﴾النور ( 31 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو مرد اور عورت بھى خلوت اور عليدگى اختيار كرتا ہے ان كے ساتھ تيسرا شيطان ہوتا ہے "
تو شريعت مطہرہ نے اس بے حيائى كے كام كى طرف جانے والے سب اسباب اور ذرائع منع كے ہيں، جس ميں پاكدامن اور غافل عورتوں كو فحش كام كى تہمت لگنے كا خدشہ ہو، اور اس كى سزا بہت زيادہ سخت ركھى ہے؛ تا كہ بے حيائى كے اسباب پھيلنے سے معاشرے كو پاك ركھا جا سكے.
اور عورت كا گاڑى ڈرائيو كرنا بھى اس كى طرف لے جانے والے اسباب ميں شامل ہوتا ہے، جو كسى پر مخفى نہيں، ليكن شرعى احكام سے جہالت، اور برائى اور منكرات كى طرف لے جانے والے وسائل اور ذرائع كے برے نتيجہ اور انجام سے جہالت، ( جس ميں بہت سارے بيمار دلوں والے پڑے ہوئے ہيں ) اور بے حيائى اور فحاشى سے محبت كرنا، اور غير محرم اور اجنبى عورت كو ديكھ كر لذت حاصل كرنے كى خواہش ركھنا، يہ سب كچھ اس معاملہ اور اس طرح كے دوسرے معاملات ميں بغير علم كے غور خوض كا باعث بنتے ہيں، جس ميں بہت زيادہ خطرات پائے جاتے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ كہہ ديجئے يقينا ميرے پروردگار نے ظاہرى فحاشى اور باطنى فحاشى اور گناہ اور ناحق بغاوت حرام كي ہے، اور يہ بھى حرام كيا ہے كہ تم اللہ كے ساتھ شريك ٹھراؤ جس كى اللہ تعالى نے كوئى دليل نازل نہيں كى، اور يہ بھى حرام كيا ہے كہ تم اللہ تعالى پر وہ بات كہو جس كا تمہيں علم ہى نہيں ﴾الاعراف ( 33 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿ اور تم شيطان كى قدموں كى پيروى مت كرو، يقينا وہ تمہارا واضح دشمن ہے ﴾البقرۃ ( 168 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميں نے اپنے بعد مردوں كے ليے سب سے زيادہ نقصان دہ فتنہ عورتوں كے علاوہ كوئى نہيں چھوڑا "
صحيح بخارى و مسلم.
اور حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ لوگ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے خير و بھلائى كے متعلق دريافت كيا كرتے تھے اور ميں آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے شر كے متعلق اس خدشہ سے سوال كيا كرتا تھا كہ كہيں وہ شر مجھے نہ آ پہنچے.
تو ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم جاہليت اور شر ميں تھے، تو اللہ تعالى نے ہميں يہ خير و بھلائى عطا فرمائى، تو كيا اس خير كے بعد بھى كوئى شر ہو گا ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں "
ميں نے عرض كيا: اور كيا اس شر كے بعد پھر خير ہو گى ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں اور اس ميں دخن ( يعنى ملاوٹ ہو گى ) ہوگا "
تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس كا دخن كيا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كچھ لوگ ميرے طريقہ كے علاوہ كسى اور طريقہ پر چليں گے، اور تم ان كے اعمال ميں سے اچھا بھى جانو گے اور برا بھى "
تو ميں نے عرض كيا: تو كيا اس خير كے بعد بھى كوئى شر ہو گا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جى ہاں جہنم كى طرف بلانے والے ہونگے، جس نے بھى ان كى بات مان لى تو وہ اسے جہنم ميں پھينك كر چھوڑينگے "
تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ہميں ان كى صفات تو بتائيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ ہمارى قوم ميں سے ہونگے، اور ہمارى زبان ميں كلام كرتے ہونگے "
ميں نے عرض كيا: اگر ميں انہيں پالوں اور وہ ميرى عمر ميں آ جائيں تو آپ مجھے كيا حكم ديتے ہيں كہ ميں كيا كروں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم مسلمانوں كى جماعت اور ان كے امام كے ساتھ رہو "
ميں نے عرض كيا: اگر اس وقت كوئى جماعت اور امام نہ ہو تو ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ان سب فرقوں سے عليحدہ رہو، چاہے تمہيں درخت كى جڑ چوس كر زندگى بسر كرنى پڑے حتى كہ تمہيں اسى حالت ميں موت آ جائے"
متفق عليہ.
ميں ہر مسلمان كو يہ دعوت ديتا ہوں كہ وہ اپنے قول و عمل ميں اللہ تعالى سے ڈرے، اور فتنوں اور اس كى دعوت دينے والوں سے اجتناب كرتے ہوئے ہر اس چيز اور عمل سے دور رہے جو اللہ تعالى كى ناراضگى اور غضب كا باعث ہوں، يا اس كى طرف لے جائيں.
اور اسے مكمل طور پر اس سے ڈرنا اور اجتناب كرنا چاہيے كہ وہ كہيں ان لوگوں ميں سے نہ ہو جائے جن كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس حديث ميں خبر دى ہے.
اللہ تعالى ہميں فتنوں كے شر اور فتنہ پردازوں سے محفوظ ركھے، اور اس امت كے دين كى حفاظت فرمائے، اور برائى كى دعوت دينے والوں كے ليے كافى ہو، اور ہمارے صحافيوں اور كالم نگاروں اور سب مسلمانوں كو ايسى اشياء لكھنے كى توفيق دے جس ميں مسلمانوں كى اصلاح اور دنيا و آخرت ميں ان كى نجات ہو، يقينا اللہ تعالى اس كا كارساز اور اس پر قادر ہے.
ديكھيں مجموع فتاوى ابن باز ( 3 / 351 - 353 ).
اور فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
آپ سے گزارش ہے كہ عورت كا گاڑى ڈرائيو كرنے كے متعلق وضاحت كريں، اور اس قول كى وضاحت كريں كہ: كسى اجنبى ڈرائيور كے ساتھ سوار ہونے سے عورت كا گاڑى ڈرائيو كرنا كم نقصان دہ ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ نے اس سوال كا جواب ديتے ہوئے كہا:
اس سوال كا جواب مسلمان علماء كے ہاں دو قاعدوں اوراصول پر مبنى ہے:
پہلا قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ: جو چيز حرام كى طرف لے جانے كا باعث ہو وہ بھى حرام ہے.
اس كى دليل اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:
﴿ اور تم ان لوگوں كو برا نہ كہو جو اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كو پكارتے ہيں، تو وہ دشمنى ميں آكر بغير علم كے اللہ تعالى كو برا كہينگے ﴾ الانعام ( 108 ).
تو اللہ تعالى نے يہاں مشركوں كے معبودوں كو برا كہنے سے منع كيا ہے، ( حالانكہ مصلحت يہى ہے ) كيونكہ يہ اللہ تعالى كو سب و شتم كا باعث ہے.
دوسرا قاعدہ اور اصول:
فساد اور خرابى كو دور كرنا اور روكنا جلب مصلحت ( يعنى مصلحت كو كھينچنے ) پر مقدم ہے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
﴿ وہ آپ سے شراب اور جوا كے متعلق دريافت كرتے ہيں، آپ كہہ ديں كہ اس ميں بہت بڑا گناہ اور لوگوں كے ليے كچھ نفع بھى ہے، اور اس كا گناہ اس كے نفع سے زيادہ ہے ﴾البقرۃ ( 219 ).
اللہ سبحانہ و تعالى نے شراب اور جوا حرام كر ديا حالانكہ اس ميں نفع بھى تھا حرام اس ليے كيا كہ اس كے ارتكاب سے حاصل ہونے والے فساد اور خرابى كو ختم كيا جا سكے.
ان دونوں قاعدوں اور اصول كى بنا پر عورت كے ليے گاڑى ڈرائيو كرنے كا حكم واضح ہو گيا، كيونكہ عورت كا گاڑى ڈرائيو كرنے ميں بہت سارى خرابياں پائى جاتى ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:
1 - حجاب اور پردہ كا اتارنا: اس ليے كہ گاڑى چلاتے وقت چہرہ ننگا كرنا پڑيگا جو كہ فتنہ و فساد اور مردوں كى التفات نظر كا باعث ہے، كيونكہ كسى عورت كى خوبصورتى يا بدصورتى كا اس كے چہرہ سے ہى پتہ چلتا ہے، يعنى جب كسى كو خوبصورت يا بدصورت كہا جاتا ہے تو ذہن فورا اسكے چہرے كى طرف ہى جاتا ہے، اور جب اس كے علاوہ كسى اور چيز كا ارادہ كيا جائے تو اس كو مقيد كرتے ہوئے يہ كہا جاتا ہے: وہ خوبصورت ہاتھوں والى ہے، يا وہ خوبصورت بالوں كى مالك ہے، يا اس كے پاؤں بہت خوبصورت ہيں، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ اسے چاہنے والوں كا مدار صرف چہرہ ہى ہے.
ہو سكتا ہے كوئى شخص يہ كہے: بغير حجاب اتارے اور چہرہ ننگا كيے بھى تو گاڑى ڈرائيو كى جا سكتى ہے، يعنى عورت صرف آنكھوں كے علاوہ باقى چہرے پر كپڑا باندھ لے اور آنكھوں پر سياہ عينك لگا لے.
تو اس كا جواب يہ ہے كہ: گاڑى چلانے كا عشق ركھنے والي عورتوں سے يہ خلاف واقع ہے، ميں دوسرے ملك ميں انہيں گاڑى ڈرائيو كرنے كا مشاہدہ كرنے والوں سے سوال كرتا ہوں كہ: اور يہ فرض بھى كر ليا جائے كہ شروع ميں ايسا كرنا ممكن بھى ہو سكتا ہے، ليكن يہ معاملہ زيادہ دير تك قائم نہيں رہ سكےگا، بلكہ جلد ہى وہى كچھ ہونے لگے گا جو دوسرے ملكوں ميں گاڑى چلانے والى عورتيں كرتى ہيں، جيسا كہ بعض اشياء اور امور ميں ترقى كا يہ طريقہ گزر چكا ہے جنہيں آسان اور چھوٹى سمجھا جاتا رہا ہے، اور پھر اس ميں جدت آنے سے كئى ايك ممنوعہ كام شامل ہو گئے جنہيں تسليم نہيں كيا جا سكتا تھا.
2 - گاڑى چلانے كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ عورت كى حياء ختم ہو جاتى ہے، اور وہ بے شرم و بے حياء ہو جاتى ہے، حالانكہ حياء اور شرم ايمان كا ايك حصہ ہے، ـ جيسا كہ صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے ـ اور شرم و حياء ہى وہ اخلاق كريمہ ہے جو عورت كى طبيعت چاہتى اور جس كا تقاضا كرتى ہے، اور اسے فتنہ و فساد ميں پڑنے سے محفوظ ركھتى ہے.
اس ليے اس ميں ضرب المثل بيان كرتے ہوئے يہ كہا جاتا ہے: ( اپنے كوٹھرى ميں كنوارى لڑكى سے بھى زيادہ شرم و حيا والا ) اور جب عورت سے شرم و حياء ہى چھين لى جائے تو پھر اس كے متعلق مت پوچھو.
3 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: عورت كا گاڑى چلانا عورت كے ليے بكثرت اپنے گھر سے باہر نكلنے كا باعث اور سبب ہے، حالانكہ اس كے ليے گھر زيادہ بہتر ہے ـ جيسا كہ نبى معصوم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے ـ كيونكہ گاڑى ڈرائيو كرنے كا جنون ركھنے والى عورتيں گاڑى چلانے ميں لطف محسوس كرتى ہيں، اس ليے آپ ديكھيں گے كہ وہ اپنى گاڑيوں ميں بغير كسى ضرورت كے ہى ايك جگہ سے دوسرى جگہ گھومتى پھرتى ہيں، كيونكہ انہيں گاڑى چلانے ميں لطف آتا ہے.
4 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس طرح تو عورت بالكل آزاد ہو جائيگى، وہ جہاں چاہے اور جب چاہے اور جيسے چاہے اور جب تك چاہے كسى بھى غرض اور مقصد سے جائے گى، كيونكہ وہ اپنى گاڑى ميں اكيلى ہے، رات كو كسى بھى وقت جائے، يا دن كے كسى وقت جائے، اور ہو سكتا ہے وہ رات كے آخرى حصہ تك بھى باہر رہ سكتى ہے.
اور جب لوگ بعض نوجوان لڑكوں كے ايسا كرنے پر تنگ اور پريشان ہيں تو پھر جب نوجوان لڑكياں ايسا كرنے لگيں تو آپ كى حالت كيا ہو گى ؟؟! اور پورے شہر كے طول و عرض ميں دائيں بائيں جہاں چاہيں جائينگى اور گھومتى رہينگى، اور ہو سكتا ہے شہر سے باہر بھى نكل جائيں.
5 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: يہ كام عورت كا اپنے گھر والوں اور خاوند كے خلاف بغاوت كا سبب ہے، اور جب گھر ميں كوئى چھوٹى سى بھى بات ہوئى تو وہ گھر سے نكل كر اپنى گاڑى ميں جہاں اسے اپنے خيال ميں راحت ملتى ہو نكل جائيگى، جيسا كہ بعض نوجوان كرتے ہيں، حالانكہ تحمل و براداشت ميں وہ عورت سے زيادہ قوى ہيں.
6 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: يہ كئى ايك جگہوں پر فتنہ و فساد كا باعث بنےگا:
راستے ميں ٹريفك سگنل پر كھڑے ہوتے وقت.
اور پٹرول پمپ پر كھڑے ہونے ميں.
اور چيكنگ پوائنٹ پر كھڑے ہونے ميں.
اور جب كسى ٹريفك قانون كى مخالفت كى تو ٹريفك پوليس كے اہلكاروں كے روكنے پر.
گاڑى كے ٹائروں ميں ہوا بھرنے كے ليے كھڑے ہونے ميں.
راستے ميں اگر گاڑى ميں كوئى خرابى پيدا ہوئى تو اس وقت كھڑے ہونے ميں، تو اس طرح عورت كو اسے ٹھيك كروانے كے ليے مدد دركار ہوگى، تو پھر اس وقت اسكى حالت كيا ہو گى ؟
ہو سكتا ہے اسے كسى ايسے شخص سے پالا پڑ جائے جو گرے ہوئے ذہن كا مالك ہو تو وہ اس كى مشكل دور كرنے ميں اس كى عزت كا سودا كريگا، اور خاص كر جب وہ عورت زيادہ ضرورتمند ہو.
7 - عورت كے ليےگاڑى ڈرائيو كرنے ميں جو خرابياں پيدا ہوتى ہيں ان ميں يہ بھى شامل ہے كہ: سڑكوں پر رش، يا كچھ نوجوان لڑكوں كو گاڑى ڈرائيو كرنے سے محروم كرنا، حالانكہ وہ اس كے زيادہ حقدار ہيں.
8 - اس كى خرابيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ: يہ خرچ اور نفقہ ميں زيادتى كا باعث بنےگا، كيونكہ عورت طبعى طور پر اپنے آپ كو لباس وغيرہ كے متعلق مكمل كرنا پسند كرتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ جب بھى كوئى نئے ڈيزائن اور ماڈل كا لباس آتا ہے تو وہ اپنے پہلے لباس كو پھينك كر نئے ڈيزائن كو خريدنے دوڑ پڑتى ہيں، چاہے وہ اس كے پاس موجود لباس سے برا ہى كيوں نہ ہو.
كيا آپ ديكھتے نہيں كہ اس نے ديواروں پر كيا نقش و نگار اور دوسرى اشياء خوبصورتى كے ليے لٹكا ركھى ہيں، اس پر قياس كرتے ہوئے ـ بلكہ ہو سكتا ہے اس سے بھى زيادہ اولى ہو ـ وہ گاڑى جس كو وہ چلاتى ہے جب بھى كوئى نيا ماڈل آئے تو وہ پہلى گاڑى چھوڑ كر نئے ماڈل كى گاڑى خريدنے دوڑ پڑےگى.
اور سائل كا يہ قول كہ: اس قول ميں آپ كى رائے كيا ہے:
( عورت كا كسى اجنبى ڈرائيور كے ساتھ سوار ہونے سے گاڑى چلانا كم نقصان دہ ہے ؟ ).
ميرى رائے يہ ہے كہ ان ميں سے ہر ايك كام ميں نقصان ہے، اور ايك چيز دوسرے سے زيادہ نقصان دہ ہے، ليكن اس كى كوئى ضرورت نہيں كہ ان ميں سے ايك كا ارتكاب كرنا ضرورى ہے.
يہ علم ميں ركھيں كہ ميں نے اس جواب ميں تفصيل كے ساتھ كلام اس ليے كى ہے كہ عورت كے گاڑى ڈرائيو كرنے كے متعلق بہت زيادہ شور و غوغہ كيا جا رہا ہے، اور سعودى معاشرہ جو كہ اپنے دين و اخلاق پر اچھى طرح قائم ہے اس پر عورت كو گاڑى ڈرائيو كرنے كى اجازت دينے كے ليے دباؤ ڈالا جا رہا ہے.
اگر يہ دباؤ ايسے دشمن كى طرف سے ہو جو اس ملك كے خلاف گھات لگائے بيٹھا ہے جو اسلام كا قلعہ ہے تو اس سے اس دباؤ اور ايسى اشكالات كا سامنے آنا كوئى تعجب والى بات نہيں، كيونكہ دشمنان اسلام اس ملك كو ختم كرنا چاہتے ہيں.
ليكن سب سے زيادہ عجيب بات تو يہ ہے كہ جب ہمارى قوم اور ہمارے شہر اور ہمارى ہى نسل كے لوگ اور ہمارى زبان ميں كلام كرنے والے، جو ہمارى رائے كو اپنا سايہ بنانے والے ہى يہ باتيں كرنے لگيں، ايسے لوگ جو كفار ممالك كى مادى اور دنياوى ترقى كو ديكھ كر اسے اپنانے كى پورى كوشش كر رہے ہيں، انہيں ان كے اخلاق پسند آنے لگے ہيں جس سے انہوں نے اپنے آپ كو فضيلت كى تمام حدود و قيود كو آزاد كر كے بے حيائى اور رذيل قيود كو اپنانے كى پورى كوشش كرنى شروع كر دى ہے. اھـ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.
ليكن جن ممالك ميں عورت كو گاڑى چلانے كى اجازت ہے وہاں مسلمان عورت كو مندرجہ بالا اسباب كى بنا پر حتى الامكان ايسا كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے.
ليكن كسى شديد ضرورت كے وقت مثلا كسى مريض اور زخمى كو ہاسپٹل لےجانے، يا كسى حرام سے فرار كے ليے مسلمان عورت كے ليے گاڑى ڈرائيو كرنے ميں كوئى حرج نہيں، تو اگر مدد كے ليے كوئى مرد موجود نہ ہو تو پھر ايسے حالات ميں عورت كے ليے گاڑى ڈرائيو كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اور كچھ ايسے حالات اور صورتيں اور بھى ہيں مثلا: وہ عورتيں جن كے ليے كام كاج كے ليے نكلنا ضرورى ہے، نہ تو اس كا خاوند ہو، اور نہ ہى باپ يا كوئى ولى جو اس كى كفالت كرے، اور نہ ہى اسے سركارى وظيفہ اور اخراجات ملتے ہوں جو اس كا خرچ پورا كريں، اور نہ ہى اسے كوئى ايسا كام ملتا ہو جو وہ اپنے گھر بيٹھ كر ہى كر سكے، مثلا انٹرنيٹ كے كچھ كام اور وہ عورت كام كے ليے گھر سے باہر نكلنے پر مجبور ہو تو وہ آنے جانے كے ليے ايسے وسائل استعمال كر سكتى ہے جس ميں كم خطرہ ہو.
اور ہو سكتا ہے عام مواصلات اور سفر كے وسائل عورتوں كے ليے خاص ہوں، يا پھر كئى ايك عورتوں كو پہنچانے كے ليے ڈرائيور كرايہ پر حاصل كيا جا سكتا ہو جو انہيں كام يا يونيورسٹى پہنچائے، اور كرايہ پر پرائيويٹ گاڑياں بھى حاصل كى جا سكتى ہيں ( جس كے پاس مالى استطاعت ہو ) يہ اشياء عام بسوں ميں سفر كے مقابلہ ميں اس كے ليے زيادہ بہتر ہوسكتى ہيں، ہو سكتا ہے بسوں ميں اسے اہانت و تذليل كا سامنا كرنا پڑے، اور اس پر زيادتى كى جائے، تو وہ اجنبى ڈرائيور كے ساتھ خلوت كيے بغير كرايہ كى گاڑى استعمال كر سكتى ہے.
اور اگر آخر ميں اسے مجبورا شديد ضرورت كے وقت جن سےمفر نہيں اسے گاڑى ڈرائيو كرنا بھى پڑے تو وہ شرعى اور كامل پردہ ميں رہتے ہوئے اور اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے گاڑى ڈرائيو كرے.
مجبورى اور ضرورت كى حالتيں اوپر بيان كى جا چكى ہيں.
اور اس كے متعلق اسے اپنےملك كے ثقہ علماء كرام كے فتاوى جات سے مدد لينى چاہيےـ متساہل علماء كے فتاوى جات سے نہيں ـ بلكہ وہ علماء جو شريعت كو سمجھتے ہيں، اور ملك كے حالات كا بھى علم ركھتے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اپنى استطاعت كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو ﴾التغابن ( 6 ).
ہم اللہ تعالى سے سلامتى و عافيت كے طلبگار ہيں، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ