كيا دوران وضوء پاؤں دھونا فرض ہيں يا كہ مسح كرنا ؟
اللہ سبحانہ وتعالى نے درج ذيل آيت ميں دوران وضوء پاؤں كا مسح كرنے كا ذكر كيوں كيا ہے:
﴿ وَامْسَحُوا بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ﴾.
ہم نے تو دوران وضوء پاؤں دھونے كى تعليم حاصل كى ہے، اس آيت ميں وامسحوا كا كلمہ كيوں آيا ہے؛ كيونكہ ميرى سہيلى نے يہ سوال كيا اور كہنے لگى ميں تو دوران وضوء اپنے پاؤں كا مسح كرتى ہوں، دھوتى نہيں، ميں تو اسے كوئى جواب نہ دے سكى، كيا يہ اعجاز كى كوئى قسم ہے، اور دھونے كے بدلے مسح كا ذكر كرنے ميں كيا حكمت ہے ؟
الحمد للہ:
وضوء ميں پاؤں دھونا فرض ہيں، مسح كرنا كافى نہيں، آپ كى سہيلى نے اس آيت سے مسح كا مفہوم ليا ہے وہ صحيح نہيں.
پاؤں دھونے كى دليل بخارى اور مسلم شريف كى درج ذيل حديث ہے:
عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتے ہيں كہ ايك سفر ميں ہم سے پيچھے رہ گئے، چنانچہ وہ ہمارے ساتھ ملے تو ہم نماز عصر ميں تاخير كر چكے تھے، چنانچہ ہم نے وضوء كيا اور اپنے پاؤں پر مسح كرنا شروع كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بلند آواز سے دو يا تين بار يہ فرمايا: ايڑيوں كے ليے آگ كى ہلاكت ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 163 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 241 ).
اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو ديكھا جس نے اپنى ايڑياں نہيں دھوئى تھيں، تو اسے فرمانے لگے:
" ايڑيوں كے ليے آگ ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 242 ).
ايڑي پاؤں كے پچھلے حصے كو كہتے ہيں.
ابن خزيمہ كہتے ہيں:
اگر مسح كرنے والا فرض ادا كرنے والا ہوتا تو اسے آگ كى وعيد نہ سنائى جاتى.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وضوء كى طريقہ كے متعلق تواتر كے ساتھ احاديث ملتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے پاؤں دھوئے، اور وہ اللہ تعالى كے حكم كى وضاحت فرما رہے تھے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كسى بھى صحابى سے اس كى مخالفت نہيں ملتى، صرف على بن ابى طالب سے، اور نہ ہى ابن عباس اور انس رضى اللہ تعالى عنہم سے يہ ملتا ہے.
اور ان سے بھى ايسا كرنے سے رجوع ثابت ہے، عبد الرحمن بن ابى ليلى رحمہ اللہ كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كا پاؤں دھونے پر اجماع ہے، اسے سعيد بن منصور نے روايت كيا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 320 ).
اور درج ذيل آيت ميں جو يہ فرمان بارى تعالى ہے:
﴿ اے ايمان والو جب تم نماز كے كھڑے ہوؤ تو اپنے چہرے اور ہاتھ كہنيوں تك دھو لو اور اپنے سروں كا مسح كرو، اور اپنے پاؤں ٹخنے تك ﴾ المآئدۃ ( 6 ).
يہ آيت پاؤں كے مسح كرنے كے جواز پر دلالت نہيں كرتى، اس كى وضاحت كچھ اس طرح ہے:
آيت ميں دو قرآتيں ہيں:
پہلى قرآت:
﴿ وَأَرْجُلَكُمْ ﴾ لام پر زبر كے ساتھ اس طرح ارجل كا عطف وجہ پر ہو گا اور چہرہ دھويا جاتا ہے، تو اس طرح پاؤں بھى دھوئے جائينگے، گويا كہ اصل ميں آيت كے الفاظ اصل ميں اس طرح ہونگے: اغسلوا وجوھكم و ايديكم الى المرافق و ارجلكم الى الكعبين و امسحوا برؤوسكم.
يعنى اپنے چہروں اور ہاتھوں كو كہنيوں تك اور پاؤں ٹخنوں تك دھوؤو اور اپنے سروں كا مسح كرو.
ليكن پاؤں دھونے كا ذكر مؤخر كرتے ہوئے سر كا مسح كرنے كے بعد ذكر كيا گيا ہے، جو كہ وضوء كرنے ميں اعضاء كى ترتيب پر دلالت كرتى ہے، كيونكہ وضوء ميں ترتيب اسى طرح ہے، كہ پہلے چہرہ دھويا جائے، پھر بازو اور پھر سر كا مسح اور پھر پاؤں دھوئے جاتے ہيں.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 471 ).
دوسرى قرآت:
﴿ وَأَرْجُلِكُمْ ﴾لام پر كسرہ يعنى زير كے ساتھ، تو اس طرح اس كا عطف الراس پر ہو گا، اور سر كا مسح ہے، تواس طرح پاؤں كا بھى مسح ہو گا.
ليكن سنت نبويہ سے ثابت ہے كہ موزے يا جرابيں پہن ركھى ہوں تو ان پر مسح كرنے كى كچھ شرطيں ہيں جو سنت ميں معروف ہيں.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 450 ) الاختيارات ( 13 ).
موزوں پر مسح كرنے كى شروط معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9640 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
تو اس سے يہ واضح ہوا كہ دونوں قرآتيں ہى پاؤں كے مسح كرنے پر دلالت نہيں كرتيں، بلكہ پاؤں دھونے يا پھر موزے پہنے ہونے كى حالت ميں مسح كرنے پر دلالت كرتى ہيں.
بعض علماء كرام ( زير والى قرآت كى حالت ميں ) كا كہنا ہے كہ يہاں مسح كا ذكر كرنے حالانكہ پاؤں دھونے ہيں، ميں حكمت يہ ہے پاؤں دھوتے وقت پانى كم از كم استعمال كيا جائے، كيونكہ عام طور پر پاؤں دھوتے وقت پانى ميں اسراف كيا جاتا ہے، چنانچہ آيت ميں مسح كا حكم ديا، يعنى پاؤں دھونے ميں پانى كا اسراف نہ كيا جائے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور يہ بھى احتمال ہے كہ مسح سے مراد خفيف دھونا مراد ہو، ابو على فارسى كہتے ہيں: خفيف سے دھونے كو عرب دھونا اور غسل كہتے ہيں، چنانچہ وہ كہتے ہيں: تمسحت للصلاۃ يعنى ميں نے نماز كے ليے وضوء كيا" انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 186 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" پاؤں كا مسح كرنے كے ذكر ميں يہ تنبيہ ہے كہ پاؤں پر پانى كم بہايا جائے، كيونكہ عام طور پر انہيں دھونے ميں اسراف سے كام ليا جاتا ہے" انتہى.
ديكھيں: منھاج السنۃ ( 4 / 174 ).
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ