آنكھ كے باہر گندگى جم جائے تو وضوء پر اس كا اثر كيا ہو گا
مجھے آنكھ سے گندگى نكل كر ناك اور آنكھ كے درميان جمع ہونے كى شكايت ہے، جب يہ خشك ہو جائے تو باريك سے چھلكے كى شكل اختيار كر جاتى ہے اور يہ سارا دن ايسے ہى رہتى حتى كہ اب مجھے عادت سى ہو گئى ہے كہ وضوء كرنے سے قبل آنكھ چيك كرنا پڑتى ہے يا اسے دھونا پڑتا ہے، يا پھر دوران وضوء اس كا خاص خيال كرنا پڑتا ہے.
ليكن بعض اوقات ميں اسے چيك نہيں كرتا كہ گندگى ہے يا نہيں، مجھے علم نہيں آيا يہ وضوء سے قبل تھى يا كہ بعد ميں پيدا ہوئى، اس كے متعلق مجھے معلومات فراہم كريں، كيونكہ مجھے اس مسئلہ نے پريشان كر ديا ہے، اگر اس طرح ہو تو كيا مجھے وضوء دوبارہ كرنا ہو گا ؟
الحمد للہ:
ناك كى طرف آنكھ كے كنارہ كو الموق ( گوشہ چشم ) كہا جاتا ہے.
مسند احمد اور سنن ابو داود اور ابن ماجہ ميں ايك حديث ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى دونوں گوشہ چشم كو ملا كرتے تھے "
مسند احمد حديث نمبر ( 22277 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 134 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 444 ) ليكن يہ حديث ضعيف ہے، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ابو داود ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
ازھرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اہل لغت اس پر متفق ہيں كہ الموق اور الماق ناك والى طرف آنكھ كے كنارے كو كہتے ہيں. انتہى
طيبى كا كہنا ہے:
آنكھ كے دونوں كناروں كو ملنا مكمل وضوء كرنے ميں مستحب ہے، كيونكہ بہت ہى كم ايسا ہوتا ہے كہ آنكھ كا كنارہ سرمہ اور ميل كچيل وغيرہ سے خالى ہو، اس ليے كہ يہ نكل كر گوشہ چشم پر جم جاتا ہے. انتہى
ماخوذ از: عون المعبود . مختصرا
شافعى حضرات نے وضوء ميں گوشہ چشم دھونا اور وہاں جمى ہوئى ميل كچيل كو دور كرنا واجب قرار ديا ہے، كيونكہ يہ پانى كو روكتى ہے.
شافعى علماء ميں سے الرملى كہتے ہيں:
" دونوں گوشہ چشم دھونا قطفى طور پر واجب ہے، اور اگر اس پر آنكھ سے نكل كر ميل جمى ہو جو پانى كو واجب جگہ تك پہنچنے سے روكے تو اس كا اتارنا اور اس كے نيچے جلد كو دھونا واجب ہے " انتہى
ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 1 / 168 ).
شيخ زكريا انصارى كى كتاب " اسنى المطالب " ميں وضوء كے مندوبات ذكر كرتے ہوئے بيان ہوا ہے كہ:
اور اسى طرح الموق ( گوشہ چشم ) ناك والى طرف آنكھ كا كنارہ انگشت شہادت سے ملے، دائيں طرف دائيں انگلى اور بائيں طرف بائيں انگلى كے ساتھ، اور اسى طرح آنكھ كى دوسرى طرف بھى، اگر تو وہاں آنكھ سے نكل كر ميل كچيل نہ جمى ہو تو وہاں پانى پہنچنے سے روك دے تو اسے دھونا مسنون ہے، اور اگر ميل كچيل ہو تو اسے دھونا واجب ہے. مجموع ميں يہى بيان ہوا ہے " انتہى.
ديكھيں: اسنى المطالب ( 1 / 43 ).
اور بعض علماء كرام كا خيال ہے كہ اگر يہ تھوڑى سى ہو تو وہ اس كا خيال نہ كرے اور يہ وضوء كے ليے نقصان دہ نہيں. شيخ الاسلام ابن تيميہ نے يہى اختيار كيا ہے.
الانصاف ميں شيخ مرداوى كہتے ہيں:
فائدہ:
اگر اس نے ناخنوں كے نيچے تھوڑى سى ميل كچيل ہو جو نيچے تك پانى جانے سے روكے تو اس كى طہارت صحيح نہيں، يہ قول ابن عقيل كا ہے..
اور ايك قول يہ ہے: اور صحيح قول بھى يہى ہے، اسے رعايۃ الكبرى، اور حواشى المقنع كے مصنف نے صحيح قرار ديا ہے، اور الافادات ميں بالجزم يہى كہا گيا ہے، اور مصنف ( يعنى ابن قدامہ ) بھى اسى طرف مائل ہيں، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے ...
اور شيخ الاسلام نے ہر تھوڑى سى چيز جو بدن پر لگى ہو اور پانى نيچے نہ جانے دے مثلا خون، اور آٹا وغيرہ كو اس كے ساتھ ملحق كيا ہے " انتہى.
اور " المغنى " ميں ابن عقيل كا قول: ناخنوں كے نيچے سے ميل كچيل دور كرنا واجب ہے، اور نيچے تك پانى نہ پہنچے تو اس كا وضوء صحيح نہيں ذكر كرنے كے بعد ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كا احتمال ہے كہ اس كے ليے يہ لازم نہيں، كيونكہ يہ تو عام ہے، اور اگر اس كا دھونا واجب ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ضرور بيان فرماتے، اس ليے كہ ضرورت كے وقت سے بيان ميں تاخير كرنى جائز نہيں " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 174 ).
واللہ اعلم .
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ