جو شخص صرف جمعہ کی نماز ادا کرتا ہے تو کیا وہ کافر نہیں ہے؟

سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ جو شخص صرف جمعہ کی نماز ادا کرتا ہے وہ کافر نہیں ہے، میں نے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے بارے میں پڑھا تھا کہ انہوں نے کہا: "جو شخص صرف جمعہ کی نماز ادا کرےوہ کافر نہیں ہے، کیونکہ اس نے نمازوں کو مکمل طور پر نہیں چھوڑا، اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "ترك الصلاة" [الف لام کیساتھ] فرمایا ہے "ترك صلاة" [بغیر الف لام کے] نہیں فرمایا" تو کیا ابن عثیمین یا ابن تیمیہ سے ایسا بیان منقول ہے؟
الحمد للہ:

تارک نماز شخص کے کفر کے بارے میں اختلافِ رائے ہے، کہ کتنی نمازیں چھوڑنے پر انسان کافر ہوجاتا ہے، چنانچہ اکثر علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ ایک یا دو فرض نمازوں کے چھوڑنے پر انسان کافر ہوجاتا ہے۔

جبکہ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ تارک نماز اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک وہ مطلقا نماز نہ پڑھے۔

پہلا قول اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے صحابہ کرام اور تابعین سے نقل کیا ہے، اس بارے میں امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"میں نے اسحاق بن راہویہ کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ تارک نماز کافر ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر آج تک اہل علم کی یہی رائے تھی، کہ جو شخص بھی بغیر کسی عذر کے نماز نہیں پڑھتا اور نماز کا وقت نکل جاتا ہے تو وہ شخص کافرہے۔

نماز کا وقت نکل جانے کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز کو اتنا مؤخر کیا جائے کہ سورج ہی غروب ہوجائے، اور مغرب کی نماز کو صبح فجر تک مؤخر کردے۔

ہم نے جو نمازوں کے آخری وقت ذکر کئے ہیں؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ ،مزدلفہ اور سفر میں دو دو نمازیں جمع کر کے پڑھی ہیں، چنانچہ ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت میں پڑھا، لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسا اوقات پہلی نماز کے وقت دوسری نماز ، اور دوسری نماز کے وقت میں پہلی نماز ادا کی ، تو اس سے معلوم ہوا کہ عذر اور مجبوری کی حالت میں [ظہر و عصر یا مغرب وعشاء] دونوں نمازوں کا ایک ہی وقت ہے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حائضہ عورت کو غروب آفتاب سےپہلے پاک ہونے کی صورت میں ظہر اور عصر دونوں نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا، اور اسی طرح اگر حائضہ رات کےآخری حصہ میں پاک ہو تو مغرب اور عشاء دونوں نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا" انتہی

ماخوذ ازکتاب:"تعظيم قدر الصلاة" (2/929)

اور محمد بن نصر رحمہ اللہ نے امام احمد کا قول ذکر کیا ہےکہ:

"جان بوجھ کر نماز چھوڑنے کے علاوہ کسی بھی گناہ سے انسان کافر نہیں ہوتا، چنانچہ اگر کسی نے نماز ترک کی اور دوسری نماز کا وقت ہوگیا تو اس سے تین مرتبہ توبہ کا موقع دیا جائے گا"

اسی طرح ابن مبارک رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا:

"جس شخص نے جان بوجھ کر بغیر کسی وجہ کے نماز ترک کی حتی کہ دوسری نماز کا وقت داخل ہوگیا تو وہ شخص کافر ہے"

"تعظيم قدر الصلاة" (2/927)

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ہمیں عمر بن خطاب، معاذ بن جبل، ابن مسعود اور دیگر سترہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسا تھ ساتھ ابن مبارک ، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ سے بتلایا گیا ہے کہ جس شخص نے یاد ہونے کے باوجود فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑدی حتی کہ نماز کا وقت ختم ہوگیا، تو وہ کافر اورمرتد ہے، اسی کے قائل امام مالک کے شاگرد عبد اللہ بن ماجشون قائل ہیں، اور عبد الملک بن حبیب اندلسی وغیرہ بھی یہی بات کہتے ہیں" انتہی

"الفصل فی الملل والأهواء والنحل" (3/128)

اسی طرح ابن حزم رحمہ اللہ "المحلى" (2/15‏) میں بھی فرماتے ہیں:

"عمر، عبد الرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابو ہریرہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ منقول ہے کہ جس شخص نے ایک فرض نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دی، اور نماز کا وقت ختم ہوگیا تو وہ شخص مرتد اور کافر ہے" انتہی

دائمی فتوی کمیٹی نے بھی اس قول کے مطابق فتوی دیا ہے، خاص طور پر عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ نے، دیکھیں: "فتاوى اللجنة" (6/40،50)

دوسرا قول یہ ہے کہ: تارک نماز کافر نہیں ہے، الا کہ مطلق طور پر نماز ترک کردے تو کافر ہوگا، یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہے، لیکن اسکے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کبھی نماز پڑھتا ہے، اور کبھی نہیں پڑھتا ، اسے حکمران یا اسکے قاصد کی جانب سے نماز کی دعوت دی جائے اور پھر بھی نماز نہ پڑھے تو وہ بھی کافر ہوگا، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ، جو شخص کبھی نماز پڑھتا ہے اور کبھی نہیں اور وہ اپنے دل میں آئندہ نماز نہ پڑھنے کا عزم کرلے تو دلی طور پر وہ بھی کافر ہوجائے گا، یعنی اللہ کے ہاں اسکا معاملہ کفر والا ہی ہوگا۔

دیکھیں: "مجموع الفتاوى" (22/49) ، (7/615) ، و"شرح العمدة" (2/94)

اسی دوسرے قول کے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ قائل ہیں، آپ کہتے ہیں:

"دلائل سے جو محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ: دائمی طور پر نماز ترک کرنے کی وجہ سے ہی کفر کا فتوی لگایا جائے گا؛ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ نماز چھوڑنا اس نے اپنی عادت ہی بنا لی ہے کہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء، اور فجر کوئی بھی نماز ادا نہیں کرتا تو ایسے شخص کو کافر قرار دیا جائے گا، چنانچہ اگر کوئی ایک دو فرض نمازیں پڑھ لیتا ہے، تو ایسے شخص کو کافر نہیں کہا جائے گا، کیونکہ ایسے شخص کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے مکمل طور پر نماز چھوڑ دی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (آدمی اور شرک کے درمیان فرق نماز چھوڑنے کا ہے) حدیث کی عربی عبارت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے " ترك الصلاة " [الف لام کیساتھ]فرمایا ہے " ترك صلاة " [الف لام کے بغیر ]نہیں فرمایا"انتہی

"الشرح الممتع" (2/26)

جبکہ ایسا شخص جو صرف جمعہ ہی پڑھتا ہے، اسکے علاوہ نمازیں نہیں پڑھتا، ایسے شخص کے بارے میں ہمیں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کوئی ایسی بات لکھی ہوئی نہیں ملی، لیکن ہم نے یہ سوال ان سے براہِ راست پوچھا تھا، تو انہوں نے فرمایا تھا: "ظاہر یہی ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا" اس لئے کہ ہر ہفتے میں پینتیس نمازوں میں سے صرف ایک نماز پڑھنا بہت کم تناسب ہے، چنانچہ اتنے کم تناسب کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نمازی ہے، بلکہ وہ تارک نماز ہے۔

واللہ اعلم .


خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ