دوران خطبہ چہرہ اور نظر خطيب كى طرف ركھنا سنت ہے
خطبہ جمعہ ميں بعض نمازى اپنى نظر خطيب كى جانب ركھتے ہيں، اور بعض اپنے سامنے ديكھتے ہيں، اور بعض زمين كى طرف، اور بعض اپنى آنكھيں بند ركھتے ہيں، كيا اس موضوع ميں كوئى معين سنت بھى ہے ؟
الحمد للہ :
بعض صحابہ كرام سے صحيح حديث ميں وارد ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب منبر پر چڑھتے تو ہم اپنے چہروں سميت ان كى جانب متوجہ ہوجاتے "
اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى السلسۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2080 ) ميں ذكر كيا ہے.
ابان بن عبد اللہ بجلى بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عدى بن ثابت كو ديكھا كہ وہ دوران خطبہ اپنے چہرے سميت امام كى طرف متوجہ تھے، تو ميں نے ان سے عرض كيا: ميں نے آپ كو چہرے سميت امام كى طرف متوجہ ديكھا ؟
تو انہوں نے جواب ديا، ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كو ايسا كرتے ہوئے ديكھا تھا.
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تشريف لے جاتے تو ہم اپنے چہروں سميت ان كى طرف متوجہ ہو جاتے"
اسے ترمذى نے روايت كرنے كے بعد كہا ہے: اس باب ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى كى حديث بھى ہے، اور محمد بن فضل ذاہب الحديث ہے، صحابہ كرام اور اہل علم كے ہاں اس پر عمل ہے، وہ دوران خطبہ امام كى طرف متوجہ ہونا مستحب سمجھتے تھے.
سفيان ثورى، امام شافعى، اور امام احمد، اور اسحاق رحمہم اللہ كا قول يہى ہے.
اور يحي بن سعيد انصارى سے مروى ہے كہ:
( سنت يہ ہے كہ جمعہ كے دن جب امام منبر پر چڑھ جائے تو سب لوگ اس كى جانب اپنے چہروں سميت متوجہ ہوں ).
نافع رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ:
( ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما جمعہ كے روز امام كے نكلنے سے قبل اپنى تسبيح سے فارغ ہو جاتے، اور جب امام نكلتا تو اس كى جانب متوجہ ہو جاتے)
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ان احاديث كو سلسلۃ احاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2080 ) ميں جمع كيا اور ان پر تعليق چڑھائى ہے.
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر بيٹھے تو ہم بھى ان كے گرد بيٹھ گئے ... "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 921 ).
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے بخارى يہ حديث باب: خطبہ ميں امام لوگوں كى جانب اور لوگ امام كى جانب متوجہ ہونگے، اور ابن عمر اور انس رضى اللہ تعالى عنہم نے امام كى طرف رخ كيا" ميں ذكر كى ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں كہتے ہيں:
" مصنف نے حديث سے ترجمۃ الباب كے مقصود پر استنباط كيا ہے، اس سے وجہ دلالت يہ ہے كہ: صحابہ كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سننے كے ليے ان كے ارد گرد بيٹھنا غالب طور پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف ديكھنے كا متقاضى ہے، خطبہ ميں كھڑا ہونے كے متعلق جو پہلے بيان ہو چكا اس وجہ سےاس پر حملہ اور اعتراض نہيں كيا جا سكتا، كيونكہ يہ اس پر محمول ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بلند جگہ پر بيٹھ كر صحابہ سے بات چيت كر رہے تھے، اور لوگ آپ كے سامنے نيچے بيٹھے ہوئے تھے، اور اگر خطبہ كى حالت كے علاوہ يہ حالت ہے تو پھر خطبہ ميں تو بدرجہ اولى ايسا ہونا چاہيے؛ كيونكہ خطبہ سننے اور اس ميں خاموشى اختيار كرنے كا حكم ہے"
اور حافظ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" ان كا امام كى طرف منہ كر كے متوجہ ہونے ميں حكمت يہ ہے كہ امام كى كلام سننے كے ليے تيار ہوا جائے، اور سماعت كلام ميں امام كے سلوك ادب كا خيال ركھا جائے، لہذا جب امام كى طرح اپنا رخ اور چہرہ اور جسم كر كے ذہن اور دل كو حاضر كر كے بيٹھا جائے تو اس كى تقرير كو سمجھنے ميں زيادہ كار آمد ہو گا، اور جس وجہ سے يہ خطبہ مشروع كيا گيا ہے اس كى موافقت ہو گى"
ديكھيں: فتح البارى لابن حجر ( 2 / 402 ).
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں
ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا
صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ