عقد نكاح كے بعد اور رخصتى سے قبل خاوند كے ليے بيوى سے كيا كچھ حلال ہے

 

 

 

 

آپ كى ويب سائٹ پر موجود جوابات سے مجھے يہى سمجھ آئى ہے كہ عقد نكاح ہو جانے كے بعد مرد اور عورت كے مابين كوئى قيد نہيں ہے، حالانكہ شادى ( يعنى رخصتى نہيں ہوئى ) اور ميں نے اس موضوع كے متعلق آپ كى ويب سائٹ پر جوابات كا مطالعہ بھى كيا ہے، ليكن ميں اس عموم عبارت ميں كافى و شافى جواب نہيں ديكھ سكا جس ميں يہ بيان ہو كہ مسلمان شخص يہ نتيجہ نكال سكے كہ وہ اس ميں نبى كريم صلى اللہ كا طريقہ اختيار كرے اور مرد و عورت آپس ميں اكيلے نہيں مل سكتے.
اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے شادى كے بعد كئى برس تك نہيں ملے بلكہ نكاح سے كئى برس بعد شادى مكمل ہونے كے بعد ہى ملے.
اس ليے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نكاح اور رخصتى كى مدت كے مابين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے اكيلے ميں نہيں ملے تو علماء كے پاس كونسى ايسى دليل ہے جس كى بنا پر وہ نكاح كے بعد اور رخصتى سے قبل مرد و عورت كو آپس ميں ملنا جائز قرار ديتے ہيں ؟

الحمد للہ:

عورت كے مرد اجنبى ہے، اور اس كے ليے عورت كى طرف ديكھنا اور اس سے مصافحہ كرنا اور اس سے خلوت اور عليحدگى اختيار كرنا حلال نہيں ہے، اس ليے اگر وہ اس سے نكاح كى رغبت ركھتا ہے تو وہ اسے شادى كا پيغام دے اور اس سے منگنى كرے، تو اس حالت ميں اس كے ليے ـ صرف ـ اسے ديكھنا جائز ہو گا، ليكن مصافحہ كرنا اور خلوت اختيار كرنا جائز نہيں، اور اگر عورت كے گھر والے اس پر راضى ہو كر اس كى اس سے شادى كر ديتے ہيں تو وہ اس كى بيوى بن جائيگى، اور وہ عورت اس كى بيوى بن جائيگى.

چنانچہ عقد نكاح كے بعد اس كو ديكھنا اور اس سے خلوت كرنا اور اسے چھونا اور اس سے استمتاع كرنا سب جائز ہے:

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور وہ لوگ جو اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كرتے ہيں، مگر اپنى بيويوں پر }.

اور زوجيت صرف عقد نكاح سے ہى ثابت ہو جاتى ہے، اس ليے جب عقد نكاح كے بعد خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك فوت ہو جائے چاہے دخول يعنى رخصتى نہ بھى ہوئى ہو تو وہ ايك دوسرے كے وارث ہونگے.

يہى وہ دليل ہے جس سے علماء كرام نے اس مسئلہ پر استدلال كيا ہے.

لوگوں ميں يہ چيز معروف ہو چكى ہے كہ عقد زواج رخصتى كے علاوہ چيز ہے، يہ اس ليے نہيں كہ عقد نكاح كے بعد دخول حرام ہے، بلكہ اس ليے اس ميں فرق كيا جاتا ہے كہ خاوند كے ليے بيوى كو اپنے زوجيت كے گھر ميں لے جانے كے ليے رخصتى كا لفظ يا شب زفاف استعمال كيا جاتا ہے.

اس ليے اگر معاملہ ايسا ہى ہے تو خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى سے دخول رخصتى كے بعد ہى كرے، كيونكہ رخصتى سے قبل اس كا دخول كئى مشكلات كا باعث بن سكتا ہے، ہو سكتا ہے رخصتى سے قبل طلاق ہو جائے، يا پھر وہ فوت ہو جائے اور عورت كنوارى تھى تو دخول سے اس كا كنوارہ پن جاتا رہا اور وہ اس سے حاملہ بھى ہو سكتى ہے جس سے پرابلم پيدا ہو سكتى ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 52806 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

رہا سائل كا يہ قول:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو عقد نكاح كے بعد سے ليكر رخصتى تك اكيلے نہيں ملے.

يہ تو صرف ايك دعوى ہے، يہ بتائيں كہ ايسا كون شخص ہے جو يقينى طور پر اس كى نفى كرتا ہو، حالانكہ يہ مدت تو تين برس كى ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے گھر روزانہ صبح اور شام دو بار آيا كرتے تھے، جيسا كہ صحيح بخارى حديث نمبر ( 476 ) سے ثابت ہوتا ہے.

اس ثبوت كے بعد كون شخص ہے جو يہ بات كہ سكے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس مدت كے دوران عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے خلوت نہيں كى ؟

پھر اگر يہ مان بھى ليا جائے كہ يہ نفى صحيح ہے، تو اس نفى كا معنى حرام نہيں، كيونكہ اس كے جواز كى دليل تو قرآن مجيد سے ملتى ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.

واللہ اعلم .

 

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ