كيا كوئى ايسى حديث پائى جاتى ہے كہ طلاق طلب كرنے پر لعنت ہو؟

سوال
كيا يہ حديث صحيح ہے كہ
خاوند سے طلاق كا مطالبہ كرنے والى بيوى ملعونہ ہے ؟:

الحمد للہ.

عورت كے ليے جائز نہيں كہ بغير كسى ايسے سبب كے طلاق كا مطالبہ كرے جو طلاق كى وجہ نہيں بن سكتا، مثلا خاوند برا سلوك كرتا ہے تو پھر طلاق طلب كى جا سكتى ہے.

اس كى دليل ابوداود ترمذى اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو عورت بھى اپنے خاوند سے بغير كسى ضرورت كے طلاق كا مطالبہ كرتى ہے تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ مرفوعا بيان كرتے ہيں كہ:

" يقينا خلع لينے والياں ہى منافقات ہيں "

اسے طبرانى نے الكبير ( 17 / 339 ) ميں روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 1934 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

ليكن ايسا كرنے والى پر لعنت ہوتى ہے ان الفاظ ميں تو ہميں كوئى حديث نہيں ملى.

اگر طلاق كى ضرورت اور اس كا كوئى سبب ہو تو پھر عورت كے ليے طلاق يا خلع حاصل كرنا جائز ہے؛ اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ثابت بن قيس كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميں ثابت بن قيس پر نہ تو اخلاقى عيب لگاتى ہوں اور نہ ہى دينى، ليكن ميں اسلام ميں كفر كو ناپسند كرتى ہوں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا تم اسے اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟

اس نے جواب ديا: جى ہاں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اپنا باغ قبول كر لو اور اسے ايك طلاق دے دو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4868 ).

اس كا يہ كہنا كہ:

" ليكن ميں اسلام ميں كفر كو ناپسند كرتى ہوں "

يعنى ميں وہ اعمال ناپسند كرتى ہوں جو اسلامى احكام كے منافى ہيں، خاوند كو ناپسند كرنا اور اس كى نافرمانى كرنا اور خاوند كے حقوق كى ادائيگى نہ كرنا ..... وغيرہ.

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 400 ).

شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ ان اسباب كو بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں جن سے خلع حاصل كرنا جائز ہو جاتا ہے:

" جب عورت اپنے خاوند كا اخلاق ناپسند كرے مثلا وہ اسے سخت يا پھر بہت تيز اور جلد متاثر ہونے والا قرار دے اور بہت زيادہ غصہ اور تنقيد كرنے والا كہے كہ چھوٹى سى بات پر اور چھوٹے سے نقص پر سزا دينا شروع كر دے تو اس عورت كو خلع حاصل كرنے كا حق حاصل ہے.

دوم:

جب وہ خاوند كى خلقت ناپسند كرتى ہو يعنى اس ميں كوئى جسمانى عيب ہو يا پھر حواس ميں نقص ہو تو وہ خلع لے سكتى ہے.

سوم:

اگر خاوند ناقص دين ہو يعنى نماز نہ پڑھتا ہو يا پھر باجماعت نماز كى ادائيگى ميں سستى كرتا ہو، پھر رمضان المبارك ميں بغير كسى عذر كے روزے نہ ركھے، يا پھر حرام كاموں زنا و نشہ اور موسيقى و گانے وغيرہ كى مجالس ميں جاتا ہو تو خلع طلب كر سكتى ہے.

چہارم:

اگر خاوند اپنى بيوى كو نان و نفقہ اور دوسرے اخراجات اور لباس وغيرہ دوسرى ضروريات پورى نہيں كرتا حالانكہ خاوند انہيں پورى كرنے پر قادر بھى ہو تو بيوى كو خلع حاصل كرنے كا حق ہے.

پنجم:

جب خاوند بيوى كو نامرد ( ايسا عيب جس سے جماع كى قدرت نہ ہو ) ہونے يا پھر اس ميں زہد كرتے ہوئے يا كسى دوسرى عورت كى طرف مائل ہونے يا پھر مبيت ميں عدل نہ كرنے كى بنا پر عادتا حق زوجيت نہيں ديتا تو بيوى كو خلع حاصل كرنے كا حق حاصل ہے "

و اللہ تعالى اعلم. انتہى

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر1859 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ