غير مدخولہ بيوى كو ہديہ دينے كى صورت ميں مدخولہ بيوى كو بھى ہدينا دينا لازم ہوگا ؟

ميں شادى شدہ ہوں اور ميرے چار بچے بھى ہيں، ميں نے دوسرا عقد نكاح كيا اور بيوى كو مہر بھى ادا كر ديا ہے، ليكن دوسرى بيوى نے مجھے يہ مہر رخصتى تك كے ليے واپس دے ديا تا كہ كہيں اس سے خرچ نہ ہو جائے.
پھر ميں اپنے شہر سے چار سو كلو ميٹر دوسرے شہر منتقل ہوگيا كہ وہاں سے واپس آ كر رخصتى كر لوں گا، ليكن اب دو برس ہو چكے ہيں اور ميں دوسرے شہر منتقل نہيں ہو سكا، ليكن جب بھى اپنے آبائى شہر جاتا ہوں تو دوسرى بيوى سے ملتا اور اس سے لطف اندوز بھى ہوتا ہوں، ليكن وہ ابھى تك كنوارى ہى ہے،
اب ميں اپنى پہلى بيوى اور بچوں كے سالانہ اخراجات كرتا ہوں، اور ميرى دوسرى بيوى اس طرح ہے كہ وہ ابھى بھى ميكے ميں رہتى ہے، ميں بعض اوقات يعنى عيد وغيرہ كے تہوار پر كچھ خرچ بھيج ديتا ہوں، برائے مہربانى مجھے يہ بتائيں كہ ميرے اس عمل كا حكم كيا ہے ؟
آيا اگر ميں نے پہلى بيوى كو كچھ ديا تو مجھے دوسرى بيوى كو بھى دينا ہوگا، يا پھر جب ميں دوسرى بيوى كو كچھ ديتا ہوں تو پہلى بيوى كو بھى دينا ہوگا، حالانكہ پہلى بيوى پر سارا سال خرچ كرتا ہوں ؟

الحمد للہ:

اگر كوئى شخص كسى عورت سے عقد نكاح كر ليتا ہے اور رخصتى خاوند كى وجہ سے نہيں ہوتى، بلكہ بيوى رخصتى كے ليے بالكل تيار ہے اور كسى بھى وقت دخول كے ليے تيار رہتى اور اپنے آپ كو خاوند كے سپرد كر ديتى ہے تو جمہور علماء كے ہاں اس كا خرچ خاوند كے ذمہ واجب ہوگا، چاہے وہ اپنے ميكے ميں والدين كے پاس ہى رہ رہى ہو.

موسوعۃ الفقھيۃ ميں بيوى كا خاوند پر نان و نفقہ واجب ہونے كا سبب اور علماء كرام كا اس سبب ميں اختلاف بيان كرتے ہوئے يہ لكھا ہے كہ:

" دوسرا قول:

جمہور فقھاء مالكيہ اور حنابلہ كے قول كے مطابق اور ابو يوسف كى ايك روايتا ور امام شافعى كے جديد قول كے مطابق بيوى كا خاوند پر نان و نفقہ اسى صورت ميں واجب ہوگا جب عقد صحيح كے بعد بيوى اپنا آپ خاوند كے سپرد كر دے "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 41 / 35 - 37 ).

اور زاد المستقنع ميں حجاوى كا كہنا ہے:

" جو شخص بيوى حاصل كر ليتا ہے، يا پھر بيوى اپنا آپ خاوند كے سپرد كر دے اور اس طرح كى بيوى سے وطئ كى جا سكتى ہو تو اس كا نان و نفقہ خاوند پر واجب ہوگا " انتہى

ديكھيں: زاد المستقنع ( 203 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس كى شرح ميں لكھتے ہيں:

" يعنى بيوى كہے: رخصتى اور دخول ميں كوئى مانع نہيں، ليكن خاوند كہے كہ ميں ابھى اسے نہيں چاہتا، ايك ماہ تو ميرے امتحانات ہيں، ميں ايك ماہ كے بعد لےجاؤنگا، تو اس ماہ كا نان و نفقہ خاوند پر واجب ہوگا، كيونكہ خاوند اپنى طرف سے استمتاع نہيں كر رہا بيوى تو بالكل تيار ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 487 ).

اس ليے اگر آپ دونوں نے كسى معين مدت تك رخصتى نہ كرنے پر اتفاق كيا ہے، اور مدت گزرنے كے بعد رخصتى ہو گى، اور اس مدت كے بعد آپ كى ملازمت كى بنا پر آپ رخصتى نہيں كر سكے تو جب يہ مدت ختم ہوئى اس كے بعد آپ پر اس كا نان و نفقہ واجب ہوگا.

اس ليے آپ كى جانب سے يہ ہديہ اور تحفہ جات كو واجب نان و نفقہ ميں شمار كيا جائيگا، اور باقى مانندہ نفقہ اس كى جانب سے ساقط كر ديا گيا ہے.

پھر يہ ہديہ اور تحفہ وغيرہ تو لوگوں كى عادت ميں شامل ہے، اور لوگ اسے جانتے ہيں، اور اس پر عمل بھى ہوتا ہے، اس ليے خاوند اپنى پہلى بيوى پر ظالم شمار نہيں ہوگا، يا يہ نہيں سمجھا جائيگا كہ وہ دوسرى بيوى كو افضل قرار ديتا ہے.

ليكن خاوند كو اس طرح كے ہديہ اور تحفہ جات ميں مبالغہ آرائى سے كام نہيں لينا چاہيے، تا كہ پہلى بيوى اس سے غيرت نہ كھا جائے، بلكہ اتنا ہى ہديہ تو تحفہ ہو جو لوگوں كى عادت ہے.

مزيد فائدہ اور تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 103885 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ