كا خرچ بيٹيوں كے ذمہ ہے يا بيٹوں كے ذمہ ؟

ميرى چھ بہنيں اور پانچ بھائى ہيں ہمارے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں، انہوں نے وراثت ميں ايك مكان چھوڑا ہے جو كرايہ پر ديا ہوا ہے، جب ہم نے كرايہ ميں سے اپنا حق طلب كيا تو ہمارا بڑا بھائى ناراض ہو گيا اور ہميں حصہ دينے سے انكار كر ديا، چنانچہ ہم نے عدالت ميں مقدمہ كر ديا تو اس نے كرائے ميں سے ہمارا حصہ دينا تسليم كر ليا، ليكن ہمارے اس فعل سے ناراض ہو كر والدہ كا خرچ بند كر ديا، كيونكہ اس كا ذہن تھا كہ ہميں اپنا حصہ وصول نہيں كرنا چاہيے تھا بلكہ اسے والدہ پر خرچ كرنا چاہيے تھا.
ہم سب بہنيں شادى شدہ ہيں اور كوئى كام بھى نہيں كرتيں، والدہ بيمار ہو كر ہاسپٹل ميں داخل ہوئيں تو بھائى نے اخراجات ادا كرنے سے انكار كر ديا، برائے مہربانى درج امور كى وضاحت فرمائيں:
والدين كا خرچ كس كے ذمہ واجب ہوتا ہے ؟
كيا بھائى كو حق حاصل ہے كہ وہ والدہ پر خرچ كرنے كى دليل دے كر كرايہ ميں سے ہمارا حصہ ركھ لے ؟
كيا استطاعت ہوتے ہوئے بھى بھائى والدہ پر خرچ كرنے سے رك سكتا ہے ؟ حالانكہ والدہ كو اخراجات كى ضرورت ہے؟

الحمد للہ :

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كے مطابق وراثت تقسيم كرنا واجب ہے، اور اس ميں كوتاہى و زيادتى كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے.

اللہ سبحانہ و تعالى نے وراثت كا ذكر كرنے كے بعد فرمايا ہے:

{ يہ اللہ كى حدود ہيں، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت كرتا ہے، اللہ تعالى اسے ايسى جنتوں ميں داخل كريگا جس كے نيچے سے نہريں جارى ہيں، جن ميں وہ ہميشہ رہيں گے، اور يہ بہت بڑى كاميابى ہے }

{ اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمان كرتا ہے اور اس كى حدود سے تجاوز كرے وہ جہنم كى آگ ميں داخل ہوگا، اس ميں ہميشہ كے ليے رہےگا، اور اس كے ليے اہانت آميز عذاب ہے }النساء ( 13 - 14 ).

اس ليے آپ كے بھائى كو اكيلے عمارت كا كرايہ استعمال كرنا اور باقى ورثاء كو اس سے محروم ركھنا جائز نہيں.

دوم:

تنگ دست والدين كا خرچ ان كى اولاد پر واجب ہے چاہے بيٹے ہوں يا بيٹياں اگر وہ مالدار ہيں اور ان كے اور اولاد كے خرچ سے مال زائد ہے تو انہيں اپنے والدين كا خرچ ادا كرنا ہوگا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{ اور تيرے رب كا فيصلہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت مت كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آؤ }الاسراء ( 23 ).

اور ضرورت كے وقت والدين پر خرچ كرنا بھى حسن سلوك ميں شامل ہوتا ہے.

ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ:

لوگوں ميں سے ميرے ليے حسن سلوك كے اعتبار سے سب سے زيادہ كون حقدار ہے ؟

تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ

اس نے عرض كيا: اس كے بعد كون ؟

تو رسول كريم صلى اللہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ

اس نے پھر عرض كيا: پھر كون ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ

اس نے پھر عرض كيا: پھر كون ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تيرا والد "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5971 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2548 ).

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا مرد كے ليے سب سے پاكيزہ وہ ہے جو وہ اپنى كمائى ميں سے كھاتا ہے، اور اس كى اولاد اس كى كمائى ميں سے ہے "

سن ابو داود حديث نمبر ( 3528 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم كا اجماع ہے كہ تنگ دست والدين جن كى كوئى آمدنى نہيں اور نہ ہى ان كے پاس مال ہے تو اولاد كے مال ميں ان كا خرچ واجب ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 169 ).

اس بنا پر آپ كى والدہ كا خرچہ عمارت كے كرايہ ميں سے ان كے حصہ ميں سے ادا ہوگا، جو كہ آٹھواں حصہ بنتا ہے، اور آپ كو والدہ كو يہ بھى حق ہے كہ وہ اپنا حصہ كسى ايك وارث يا كسى دوسرے كو فروخت كر دے، اور اس مال سے اپنے اخراجات پورے كرے.

اور اگر يہ مال يا كرايہ اس كے اخراجات كے ليے كافى نہيں ہوتا تو پھر اس كى مالدار اولاد كے مال سے خرچ مكمل كرنا واجب ہوگا، چاہے وہ بيٹے يا بيٹياں ہوں.

چنانچہ اگر عورت شادى شدہ ہو اور اس كے اخراجات خاوند پورے كرتا ہے، اور اس كے پاس زيادہ مال و چاہے عمارت كے كرايہ ميں سے ہى تو اس پر اپنى ماں كا خرچ برداشت كرنا لازم ہے.

شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر والدين تنگ دست اور ضرورتمند ہوں اور بيٹى كے پاس اپنى ضرورت سے زائد مال ہو تو اس كے ليے اپنے والدين پر بقدر ضرورت خرچ كرنا لازم ے، ليكن وہ اپنى ضرورت ميں كمى نہيں كريگى " انتہى

اور يہ خرچ وراثت كے مطابق ہوگا؛ كيونكہ عمومى فرمان بارى تعالى ہے:

{ اور وارث پر بھى اسى طرح ہے }البقرۃ ( 233 ).

آپ كے بھائى كے ليے والدہ كے خرچ كى دليل اور بہانہ بنا كر كرايہ ميں سے آپ كا حصہ روك لينا جائز نہيں، بلكہ اسے ہر وارث كو اس كے حصہ كے مطابق رقم دينا ہوگى، اور سب مل كر اپنى والدہ كے اخراجات پورے كريں، يہ جہاں تك بھى پہنچ جائے پھر بھى ماں كے آپ پر جو حقوق ہيں ان كے برابر نہيں ہو سكتا.

امام بخارى رحمہ اللہ نے ادب المفرد ميں ابو بردہ سے روايت كيا ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى نے ايك يمنى شخص كو ديكھا كہ وہ اپنى والدہ اپنے كندھوں پر اٹھائے طواف كرا رہا ہے، اور وہ كہہ رہا ہے ميں اپنى ماں كے ليے ايك مطيع اونٹ ہوں، اس نے ابن عمر سے عرض كيا:

كيا آپ سمجھتے ہيں كہ ميں نے اپنى ماں كا حق ادا كر ديا ہے ؟

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:

نہيں اللہ كى قسم تم نے تو ولادت كے وقت درد كى ايك لہر كا بھى حق ادا نہيں كيا "

الادب المفرد حديث نمبر ( 18 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الادب المفرد ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

الزفرۃ تردد نفس كو كہتے ہيں، جو ولادت كے وقت عورت كو پيش آتا ہے.

اس ليے تم اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنى اصلاح كرو، اور اپنى والدہ كے متعلق اللہ تعالى كا خوف كھاؤ اور والدہ كا حق ادا كرو، كيونكہ تمہارے حسن سلوك اور صلہ رحمى كے ليے والدہ كا حق ہى سب سے زيادہ ہے.

ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو سيدھى راہ كى دكھائے اور آپ كو توفيق نصيب كرے.

واللہ اعلم

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ