رضاعت كى تعداد ميں شك ہونے كى بنا پر شادى نہ كرنا ہى احتياط ہے

 

 

 

ميں اپنى خالہ كى بيٹى سے شادى كرنا چاہتا ہوں ليكن ميرى والدہ كہتى ہے كہ ميں نے اسے دودھ پلايا ہے ليكن انہيں يہ علم نہيں كہ پانچ رضاعت ہيں يا اس سے كم، تو كيا ميرے ليے اس سے شادى كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

حرمت اس وقت ثابت ہوتى ہے جب اس ميں دو شرطيں پائى جائيں:

پہلى شرط:

يہ رضاعت دو سال كى عمر دودھ چھڑانے سے قبل ہونى چاہيے.

دوسرى شرط:

رضاعت كى تعداد پانچ يا اس سے زيادہ ہو، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 804 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

اگر تو پانچ رضاعت سے كم ہو تو حرمت ثابت نہيں ہو گى.

اور اگر رضاعت كى تعداد ميں شك پيدا ہو جائے كہ آيا پانچ تھيں يا نہيں ؟ تو بھى حرمت ثابت نہيں ہو گى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب رضاعت كے وجود ميں شك ہو جائے يا پھر رضاعت كى تعداد ميں آيا تعداد مكمل ہوئى ہے يا نہيں ؟ تو حرمت ثابت نہيں ہو گى، كيونكہ اصل رضاعت كا نہ ہونا ہے، اس ليے يقين شك سے زائل نہيں ہو سكتا " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 11 / 321 ).

اور اس ليے كہ حرمت اس وقت ہى ثابت ہو گى جب پانچ رضعات كا يقين ہو جائے، ليكن احتياط اور بہتر اسى ميں ہے كہ اس سے شادى نہ كرے، كيونكہ كچھ علماء كا مسلك يہ بھى ہے كہ رضاعت چاہے قليل ہو يا كثير اس سے حرمت ثابت ہو جاتى ہے اور انہوں نے پانچ رضاعت كى شرط نہيں لگائى، امام ابو حنيفہ اور امام مالك كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھى ايك روايت يہى ہے "

ديكھيں: المغنى ( 11 / 310 ).

اور شيخ صالح الفوزان بن عبد اللہ الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" جب رضاعت كى تعداد كا يقين نہ ہو، ليكن يہ يقين ہو كہ رضاعت ضرور ہوئى ہے، تو احتياط اسى ميں ہے كہ شبہ سے بچنے كے ليے اس سے شادى نہ كى جائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى مشتبہات سے اجتناب كرتا ہے تو اس نے اپنے دين اور اپنى عزت دونوں كو محفوظ كر ليا "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" جس ميں تمہيں شك ہو اسے ترك كر كے اسے لے لو جس ميں تمہيں شك نہيں " انتہى

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلۃ ( 2 / 856 - 857 ).

واللہ اعلم .

 

 

 

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ