اپنى بيوى كو كہا: اگر تو فلاں جگہ گئى تو ميرے اور تيرے مابين كلام كرنى حرام

ميں جو بھى كام كروں اسے كم از كم دو بار كرتا ہوں تا كہ يقينى طور پر ہو جائے، ميرے اور بيوى كے مابين ايك بار جھگڑا ہوا كيونكہ وہ بنك ملازمت كرنا چاہتى تھى، ميں اس سے ظہار كرتے ہوئے يہ كہنا چاہا كہ اگر تم ايسا كرو تو تم مجھ پر ميرى ماں جيسى ہو، ليكن ميں نے يہ كلمات شديد ہونے كے خوف سے يہ كلام نہ كہى، بلكہ اسے يہ كہہ ديا كہ اگر تم گئى تو ميرے اورتيرى درميان بات چيت حرام ہے.
آپ سے گزارش ہے كہ درج ذيل سوالات كے جوابات عنائت فرمائيں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا كرے:
1 - بعض اوقات مجھے يہ خيال آتا ہے كہ " اگر گئى تو " كے الفاظ نہيں كہے، ان دونوں حالتوں ميں شرعى حكم كيا ہوگا، يہ علم ميں رہے كہ ميرى نيت يہ تھى كہ اگر گئى تو ميں اس سے جھگڑوں گا، يعنى ميں اسے دھمكى دے رہا تھا ؟
2 - كيا جب ميں كوئى سوال كرتا ہوں، يا ميں نے جو كہا اسے تكرار كے ساتھ كہوں، يا سوال كرنے كے ليے جس ميں مجھے شك ہو تو اس پر ميرا شرعى محاسبہ كيا جائيگا ؟

3 -

ميں نے جو كچھ بيوى سے كہا ہے اس كو مد نظر ركھتے ہوئے اگر كوئى شرعى ممانعت ہو تو ميرى بيوى كے حمل كا حكم كيا ہو گا ؟

الحمد للہ:

اول:

آپ كے سوال سے يہ سمجھ آتى ہے كہ آپ وسوسہ كا شكار ہيں، اور كسى بھى عمل كو يقينى بنانے كے ليے دو بار كرنے كى ضرورت محسوس كرتے ہيں، اور آپ كو يہ خيال پيدا ہوتا ہے كہ آپ نے يہ بات كى يا نہيں كى.

آپ سے گزارش ہے كہ وسوسے كا سب سے بہتر علاج دو چيزيں ہيں:

پہلى:

اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى اطاعت و فرمانبردارى كثرت سے كرنا.

دوسرى:

وسوسہ كى طرف التفات نہ كرنا، اور توجہ نہ دينا، اور اسے قبول نہ كرنا.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 62839 ) اور ( 25778 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اس ليے ہم كہتے ہيں: اصل يہى ہے كہ آپ نے اپنى بيوى سے يہ بات كہى كہ: اگر تم گئيں تو ميرے اور تيرى مابين بات چيت حرام ہے، اس ليے آپ بعد ميں وسوسہ كى بنا پر پيدا ہونے والے شك كى طرف متوجہ نہ ہوں.

دوم:

اگر خاوند اپنى بيوى كو كہے: اگر تم فلاں جگہ گئى تو ميرے اور تيرے مابين بات چيت حرام ہے.

اس ليے اگر بيوى نہ جائے تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا، اور اگر چلى جائے تو يہ ديكھا جائيگا كہ اگر خاوند نے طلاق كا ارادہ كيا ہو تو طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ اس كى يہ كلام طلاق كے كنايہ ميں شامل ہوگى.

اور اگر اس نے طلاق كا ارادہ نہ كيا ہو ـ جيسا كہ آپ كے سوال ميں ہے ـ تو اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا لازم ہے، جو كہ ايك غلام آزاد كرنا، يا دس مسكينوں كو كھانا كھلانا، يا انہيں لباس مہيا كرنا ہے، اور اگر اس اس كى استطاعت نہ ہو پھر تين يوم كے روزے ركھنا ہونگے.

اس ميں اصل اور دليل يہ ہے كہ حلال چيز كو حلال كرنا قسم كہلاتى ہے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) آپ وہ چيز حرام كيوں كرتے ہيں جسے اللہ تعالى نے آپ كے ليے حلال كيا ہے، آپ اپنى بيويوں كو خوش كرنا چاہتے ہيں! اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے، تحقيق اللہ تعالى نے تمہارے ليے تمہارى قسموں كا كھولنا مقرر كر ديا ہے، اور اللہ تعالى تمہارا كارساز ہے، اور وہى جاننے والا اور حكمت والا ہے ﴾التحريم ( 1 - 2 ).

البحر الرائق ميں ہے:

" اس سے يہ معلوم ہوا كہ حلال چيز كو حرام كرنا قسم كے معنى ميں آتا ہے جو كفارہ كا موجب ہے..... تو اس ميں يہ بھى داخل ہو گا كہ جب كوئى شخص يہ كہے: تيرى كلام مجھ پر حرام ہے، يا ميرے ساتھ، يا تيرے ساتھ كلام حرام ہے " انتہى.

ديكھيں: البحر الرائق ( 4 / 317 ).

سوم:

اگر خاوند اپنى بيوى كو يہ كہے: ميرے اور تيرے درميان بات چيت حرام ہے، ليكن يہ نہ كہا ہو: اگر تو فلاں جگہ گئى تو.

اگر خاوند نے طلاق كى نيت كى تو فى الحال طلاق واقع ہو جائيگى چاہے وہ جائے يا نہ جائے، اور اگر طلاق كى نيت نہ كى ہو تو اس پر قسم كا كفارہ لازم آئيگا.

چہارم:

جب آپ كوئى كلام كريں، يا پھر كوئى سوال كريں اور اس ميں تكرار كريں تو آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، مہم يہ ہے كہ كلام مباح ہونى چاہيے.

پنجم:

اگر آپ نے اپنى حاملہ بيوى سے مندرجہ بالا كلام كى تو اس كا حمل پر كوئى اثر نہيں ہوگا، شريعت جس چيز كى حرمت آئى ہے وہ حائضہ عورت كو طلاق دينے كى حرمت ہے، ليكن حاملہ عورت كے حمل كا طلاق پر كوئى اثر نہيں پڑتا، حالانكہ بالفعل آپ نے طلاق دى بھى نہيں.

ششم:

سودى بنك ميں ملازمت كرنى جائز نہيں، كيونكہ بنك ملازمت ميں گناہ اور عدوان ميں تعاون ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود لينے، اور سود دينے، اور اسے لكھنے، اور اس پر گواہى دينے والوں پر لعنت كى ہے، اور فرمايا ہے يہ سب برابر ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ