خاوند نے تين طلاق كے الفاظ بولے اور قاضى نے ايك طلاق لكھى عدت ختم ہونے كے بعد رجوع كرنا چاہتا ہے

ميں نے اپنى بيوى كو تقريبا آٹھ برس قبل طلاق دى تھى اور جب شرعى قاضى نے طلاق لكھنے كے ليے طلب كيا تو ميں نے كہا: ميں اپنى بيوى فلاں بنت فلاں كو تين طلاق ديتا ہوں، اور ميں جو كچھ لكھا گيا ہے ميں اس كا ادراك ركھتا اور ايك پڑھا لكھا شخص ہوں.
ليكن جب اسٹام لكھنے كى بارى آئى تو كاتب نے ايك طلاق لكھى، اس ليے ميرى بيوى كو رجوع كى اميد پيدا ہو گئى اور اب تك اس نے شادى نہيں كى، اور اب ميں بھى اس سے رجوع كرنے كى رغبت ركھتا ہوں، اسى طرح اس كے خاندان والے بھى رغبت ركھتے ہيں.
ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ميں اپنے ذمہ كى مخالفت كر كے اسٹام ميں لكھے ہوئے پر عمل كروں يا كہ ايسا نہ كروں ؟

الحمد للہ:

ايك ہى لفظ ميں تين طلاق دينے كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے مثلا كوئى كہے:

" اسے تين طلاق " تو اكثر علماء كرام كے ہاں اس سے تين طلاق واقع ہو جاتى ہيں، ليكن كچھ علماء كے ہاں صرف ايك ہى طلاق واقع ہوگى.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے اپنى بيوى كو ايك ہى كلمہ ميں تين طلاق دے ديں تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جب كوئى شخص اپنى بيوى كو ايك ہى كلمہ ميں تين طلاق دے مثلا وہ اسے كہے: تجھے تين طلاقيں " يا " تين طلاق والى " تو جمہور اہل علم كے ہاں يہ تين طلاق واقع ہو جائينگى، اور اس طرح وہ عورت اپنے خاوند كے ليے حرام ہو جائيگى حتى كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرے نہ كہ نكاح حلالہ اور وہ اس سے وطئ و جماع كرے اور پھر وہ طلاق دے دے يا فوت ہو جائے تو وہ پہلے خاوند كے ليے حلال ہو گى.

انہوں نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے عمل سے استدلال كيا ہے كہ انہوں نے تين طلاقوں كو جارى كر ديا تھا.

اور كچھ اہل اسے صرف ايك ہى طلاق شمار كرتے ہيں اور كہتے ہيں كہ اسے عدت كے دوران رجوع كرنے كا حق حاصل ہے اور اگر عدت گزر جائے تو وہ نئے نكاح كے ساتھ حلال ہو جائيگى انہوں صحيح مسلم ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں اور ابو بكر الصديق رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت ميں اور عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت كے دو برس ميں تين طلاق كو ايك طلاق ہى شمار كيا جاتا تھا.

چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: لوگوں نے ايسے معاملہ ميں جلد بازى كرنا شروع كر دى ہے جس ميں ان كے ليے تحمل و بردبارى اور غور و فكر تھا، اس ليے اگر ہم اسے ان پر جارى كر ديں تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ان پر اسے جارى كر ديا "

اور مسلم شريف كى ايك روايت ميں ہے:

" بو صھباء نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا:

كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور خلافت ميں اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت كے دو برس تك تين كو ايك ہى شمار نہيں كيا جاتا رہا ؟

تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا: كيوں نہيں "

انہوں نے امام احمد كى جيد سند كے ساتھ ابن عباس سے روايت كردہ درج ذيل حديث سے بھى استدلال كيا ہے كہ:

" ابو ركانہ نے اپنى بيوى كو تين طلاق دے ديں تو پريشان ہو گئے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس كى بيوى واپس كر دى اور اسے ايك ہى طلاق شمار كيا "

انہوں نے اس اور اس سے پہلى حديث كو ايك ہى كلمہ ميں تين طلاق كو ايك ہى طلاق پر محمول كيا ہے تا كہ ان دونوں حديثوں اور اللہ تعالى كے اس فرمان ميں جمع كيا جا سكے:

{ طلاق دو بار ہے }البقرۃ ( 229 ).

اور فرمان بارى تعالى ہے:

{ پھر اگر وہ اس كو ( تيسرى بار ) طلاق دے دے تو ا باس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے علاوہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے، پھر اگر وہ بھى اسے طلاق دے دے تو ان دونوں كو ميل جول كر لينے ميں كوئى گناہ نہيں، بشرطيكہ وہ جان ليں كہ اللہ كى حدود كو قائم ركھ سكيں گے يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں جنہيں وہ جاننے والوں كے ليے بيان فرما رہا ہے }البقرۃ ( 230 ).

صحيح روايت سے ثابت ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول يہى تھا، اور ايك روايت ميں اكثر كا قول بھى روايت كيا گيا ہے.

اور تين طلاق كو ايك طلاق شمار كرنے كا قول على بن ابى طالب اور عبد الرحمن بن عوف اور زبير بن عوام رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى مروى ہے.

تابعين كى ايك جماعت اور سيرت نگار ابن اسحاق اور اكثر متاخر اور متقدم اہل كا قول يہى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے، اور ميں بھى يہى فتوى ديتا ہوں؛ كيونكہ اس ميں سارى نصوص پر عمل ہوتا ہے؛ اور اس ليے كہ يہ مسلمانوں پر رحمت اور نرمى ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميہ ( 3 / 271 - 272 ).

ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ شرعى قاضى نے بھى اسى قول كو اختيار كيا ہے كہ تين طلاق سے ايك ہى طلاق واقع ہوتى ہے، اس ليے بيوى سے رجوع كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن عدت ختم ہونے كے بعد رجوع نہيں ہو سكتا، بلكہ عقد جديد كيا جا سكتا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" .... ليكن اگر عدت پورى ہو جانے كے بعد رجوع ہو ـ يعنى تين حيض آ جانے كے بعد ـ تو يہ رجوع صحيح نہيں؛ كيونكہ جب عورت كى عدت پورى ہو جائے تو وہ اپنے خاوند سے اجنبى بن جاتى ہے، اور اس كے ليے نئے عقد نكاح سے ہى حلال ہو جاتى ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 293 ).

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ