جان كے ڈر سے عورت كا كسى دوسرے علاقے اور ملك ميں جا كر عدت گزارنا

ايك عورت كا خاوند بغداد ميں صرف اس ليے قتل كر ديا گيا كہ اس كانام عمر تھا، قاتلوں نے اسے قتل كر كے اس كے گھر اور ہر چيز پر قبضہ كر ليا، اب خاوند كے خاندان كے سب افراد وہاں سے سوريا منتقل ہونا چاہتے ہيں، كيا اس عورت كے ليے بھى ان كے ساتھ جانا جائز ہے يا نہيں ؟
يا كہ اس كے ليے عدت كا عرصہ بغداد ميں ہى رہنا ضرورى ہے، يہ علم ميں رہے كہ عورت كو اپنى اور اولاد كى جان كا خطرہ ہے ؟

الحمدللہ:

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اسلام اور مسلمانوں كو رفعت و بلندى اور عزت عطا فرمائے، اور ہمارے عراق بھائيوں سے ظلم و ستم كو دور كرے، اور ان پر اپنى رحمت وشفقت كر كے ان كى كے نقصانات كى تلافى فرمائے؛ يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اس پر قادر ہے.

ہمارى اللہ سبحانہ و تعالى سے يہ بھى دعا ہے كہ وہ ہمارے ان مسلمان بھائيوں سے ان منافقوں كے شر كو دور و ختم كرے اور اس شر كا وبال بھى ان منافقين پر ہى ڈالے، اور ان پر اپنا وہ عذاب نازل فرمائے جو مجرموں سے دور نہيں كيا جاتا.

دوم:

اصل تو يہى ہے كہ يہ عورت اپنے اسى گھر ميں بيوگى كى عدت بسر كرے جہاں اسے خاوند كے فوت ہونے كى اطلاع اور خبر ملى تھى؛ كيونكہ كتب سنن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے درج ذيل حديث ثابت ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فريعہ بنت مالك رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا:

" تم عدت ختم ہونے تك اپنے اسى گھر ميں رہو جس گھر ميں تمہيں خاوند كے فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2300 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1204 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اگر وہاں كسى دشمن وغيرہ كى موجودگى كى بنا پر آپ كو جان كا خطرہ ہو تو عدت گزارنے كے ليے وہاں سے كسى دوسرے علاقے يا گھر ميں منتقل ہونا جائز ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بيوہ كے ليے اپنے گھر ميں ہى عدت گزارنے كو ضرورى قرار دينے والوں ميں عمر اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہما شامل ہيں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى مروى ہے، اور اما مالك امام ثورى اور امام اوزاعى اور امام ابو حنيفہ اور امام شافعى اور اسحاق رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

حجاز شام اور عراق كے فقھاء كرام كى جماعت كا بھى يہى قول ہے "

اس كے بعد لكھتے ہيں:

" چنانچہ اگر بيوہ كو گھر منہدم ہونے يا غرق ہونے يا دشمن وغيرہ كا خطرہ ہو... تو اس كے ليے وہاں سے دوسرى جگہ منتقل ہونا جائز ہے؛ كيونكہ يہ عذر كى حالت ہے...

اور اسے وہاں سے منتقل ہو كر كہيں بھى رہنے كا حق حاصل ہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: المغنى ( 8 / 127 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك عورت كا خاوند فوت ہو گيا ہے اور جس علاقے ميں اس كا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت كى ضرورت پورى كرنے والا كوئى نہيں، كيا وہ دوسرے شہر جا كر عدت گزار سكتى ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" اگر واقعتا ايسا ہے كہ جس شہر اور علاقے ميں خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس بيوہ كى ضروريات پورى كرنے والا كوئى نہيں، اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہيں كر سكتى تو اس كے ليے وہاں سے كسى دوسرے علاقے ميں جہاں پر اسے اپنے آپ پر امن ہو اور اس كى ضروريات پورى كرنے والا ہو وہاں منتقل ہونا شرعا جائز ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتا ( 20 / 473 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:

" اگر آپ كى بيوہ بہن كو دوران عدت اپنے خاوند كے گھر سے كسى دوسرے گھر ميں ضرورت كى بنا پر منتقل ہونا پڑے مثلا وہاں اسے اكيلے رہنے ميں جان كا خطرہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، وہ دوسرے گھر ميں منتقل ہو كر عدت پورى كريگى " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 473 ).

اس بنا پر اس عورت كے ليے سوريا منتقل ہو كر اپنى عدت سوريا ميں پورى كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.

واللہ اعلم

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ