اولاد كا لباس اور گھريلو سامان خريدنے كے ليے خاوند كے علم كے بغير رقم لينى

ميرے والد صاحب كھانے كے اخراجات كے علاوہ ہم پر كچھ خرچ نہيں كرتے، اس ليے والدہ والد صاحب كے علم كے بغير ہمارے لباس اور دوسرے سامان كے ليے رقم لے ليتى ہيں كيا ميرى والدہ كے ليے ہمارے والد كے علم كے بغير مال لينا جائز ہے يا نہيں ؟

الحمد للہ:

اگر آدمى اپنے بيوى بچوں كے واجب اخراجات نہيں كرتا تو بيوى كے ليے خاوند كے مال سے اتنى رقم لينا جائز ہے جو اس كے اپنے اور اولاد كے اخراجات كے ليے كافى ہو؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے كہ:

ہند بن عتبۃ رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور عرض كرنے لگي: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ابو سفيان ايك كنجوس شخص ہے اور مجھے اتنى رقم نہيں ديتا جو ميرے اور ميرے بچوں كے ليے كافى ہو، الا يہ كہ ميں اس كى لاعلمى ميں كچھ رقم نہ لے لوں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ سلم نے فرمايا:

" تم اتنا بہتر طريقہ سے اتنى رقم لے ليا كرو جو تمہارے ليے كافى ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5364 ).

شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں دليل پائى جاتى ہے كہ بيوى كا نان و نفقہ اور اخراجات خاوند كے ذمہ واجب ہيں، جيسا كہ بيان ہو چكا ہے اس پر سب متفق ہيں، اور اسى طرح بچے كا خرچ اور نفقہ بھى اس كے والد پر واجب ہے "

اور يہ دليل پائى جاتى ہے كہ جس كا خرچ كسى شخص پر شرعا واجب ہوتا ہو اور وہ اسے نہ ديتا ہو تو وہ اتنا مال لے سكتا ہے جو اس كے ليے كافى ہو، يعنى جس پر واجب ہے وہ نہ دے اور اس پر زيادتى كرتے ہوئے كم خرچ دے " انتہى

ديكھيں: نيل الاوطار ( 6 / 383 ).

اس ليے آپ كى والدہ كے ليے جائز ہے كہ وہ آپ لوگوں كے لباس كى ضرورت پورى كرنے كے ليے اتنى رقم لے لے جو كافى ہو؛ كيونكہ يہ خاوند كے ذمہ واجب نفقہ ميں شامل ہوتا ہے.

رہا مسئلہ سامان كا تو اگر اس سے چارپائى اور پلنگ اور سونے كے بستر مراد ہيں، يا پھر دن ميں بيٹھنے كے ليے اشياء مراد ہوں تو يہ اشياء بھى خاوند پر واجب تھيں، اس ليے اگر خاوند يہ اشياء نہيں لا كر ديتا تو بيوى كے ليے يہ اشياء خريدنے كے ليے خاوند كى لاعلمى ميں يہ رقم لينى بھى جائز ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند كے ذمہ وہ اشياء لانا بھى واجب ہيں جو بيوى كے ليے سونے كى ليے ہوں، مثلا لحاف اور بستر اور تكيہ وغيرہ يہ سب كچھ حسب عادت لانا ہونگى؛ اس ليے اگر كسى كو چٹائى اور اوپر لينے والى چادر ميں سونے كى عادت ہو، تو خاوند اس كے سونے كے ليے وہ اشياء لا كر دےگا جس ميں اسے سونے كى عادت ہے.

اور اسى طرح دن ميں بيٹھنے كے ليے بچھونا اور قالين و چٹائى وغيرہ بھى، يہ حسب استطاعت ہوگى يعنى مالدار پر قيمتى اشياء اور تنگ دست پر سستى اشياء حسب عادت خريدنا واجب ہونگى " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 8 / 159 ).

اسى طرح بنيادى گھريلو اشياء مثلا فريج اور گيس اور سلائى مشين اور واشنگ مشين اور استرى وغيرہ بھى مہيا كرنا واجب ہے.

اصل ميں تو بيوى كے ليے خاوند كى لاعلمى سے خاوند كا مال لينا جائز نہيں، بلكہ صرف واجب نفقہ كے ليے ہى مندرجہ بالا حديث كى بنا پر يہ استثناء كيا گيا ہے كہ اگر وہ نہيں لا كر ديتا تو بيوى خود لے سكتى ہے، اس ليے اس حق كو ضرورت سے زيادہ استعمال كرنے سے گريز كرنا چاہيے.

واللہ اعلم .

 

خرابی کی صورت یا تجاویزکے لیے رپورٹ کریں

ہر میل،فیڈبیک،مشورے،تجویز کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا

صفحہ کی لائن میں تبدیلی نہ کریں ـ